جائے، لوگ مڑ مڑ کر دیکھیں اور میری تعریف کریں تو ایسی نیت مَذموم ہے چنانچہ اس نیت سے خوشبو لگانے کی حِرْص بھی مذموم ہے۔ حُجَّۃُ الْاِسلام حضرتِ سیِّدُنا ابو حامد امام محمدبن محمد بن محمد غزالی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الوالیکا فرمانِ عالی ہے:اِس نیّت سے خوشبو لگانا کہ لوگ واہ واہ کریں یا قیمتی خوشبو لگاکر لوگوں پر اپنی مالداری کا سکّہ بٹھانے کی نیّت ہو تو ان صُورَتوں میں خوشبو لگانے والا گنہگار ہوگا اور خوشبو بروزِقِیامَت مُردار سے بھی زِیادہ بدبودار ہوگی۔(نیکی کی دعوت(حصہ اول)،ص۸۱۱بحوالہ احیاء علوم الدین، کتاب النیۃ۔۔۔الخ،بیان تفصیل الاعمال۔۔۔الخ،ج۵،ص۸۹)
نیت حا ضِر ہونے پر خوشبو لگائی
ایک مرتبہ شیخِ طریقت امیرِ اہلسنّت بانیٔ دعوتِ اسلامی حضرت علامہ مولانا ابوبلال محمد الیاس عطارؔ قادری دامت برکاتہم العالیہنے خوشبو استعمال کرنے کیلئے عِطْر کی شیشی اُٹھائی لیکن غالباًاس خیال سے پھر واپس رکھ دی کہ اگر میں صِرْف خوشبو حاصل کرنے کیلئے عِطْر لگاؤں گاتو خوشبو تو ملے گی مگر دل میں سنت کی نیت حاضِرنہ ہونے کی بِنا پر سنت کا ثواب نہیں ملے گا۔چند لمحوں بعدآپ دامت برکاتہم العالیہ نے دوبارہ عِطْر کی شیشی اُٹھائی اورسنت کی نیت سے خوشبو اِستعمال فرمائی۔امیرِاہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ فرماتے ہیں:میری کوشش ہوتی ہے کہ جب نماز کیلئے تیاری ہو توتعظیمِ نماز کی نیت سے خوشبو اِستعمال کرکے نماز پڑھوں۔اللّٰہعَزَّوَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔ٰ امین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمینصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم