۲۵۴) فُقَہائے کرام رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام فرماتے ہیں: مُباحات(یعنی ایسے جائز کام جن پر نہ ثواب ہو نہ گناہ ان) کاحُکم الگ الگ نیّتوں کے اِعتِبار سے مختلف ہوجاتاہے ، اس لئے جب اس سے (یعنی کسی مباح سے )طاعات (یعنی عبادات) پر قُوَّت حاصِل کرنا یا طاعات (یعنی عبادات ) تک پہنچنا مقصود ہو تو یہ( مُباحات یعنی جائز چیزیں بھی ) عبادات ہوں گی مَثَلاً کھانا پینا، سونا، حُصولِ مال اور وَطی(یعنی زوجہ سے ہم بستری) کرنا ۔ (اَیضاً ج۷،ص۹۸۱،رَدُّ الْمُحتار ج۴ ص۵۷)
مُباح حرص کے محمودیا مذموم بننے کی ایک مثال
عِطر لگانا ایک مُباح کام ہے جس پر اچھی اچھی نیتیں کرکے ثواب کمایا جاسکتا ہے چنانچہ جسے اچھی اچھی نیتوں کے ساتھ عطر لگانے کی حِرْص ہو تو اس کی یہ حِرْص محمود ہوگی ۔ عارِف بِا للہ ،مُحَقِّق عَلَی الاطلاق،خاتِمُ المُحَدِّثین ، حضرتِ علّامہ شیخ عبدُالحقّ مُحَدِّث دِہلوی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِیلکھتے ہیں : مُباح کاموں میں بھی اچّھی نیّت کرنے سے ثواب ملے گا،مَثَلاً خوشبو لگانے میں اِتّباعِ سنّت اور (مسجِد میں جاتے ہوئے لگانے پر) تعظیمِ مسجِد(کی نیّت بھی کی جاسکتی ہے) ، فَرحَتِ دِماغ (یعنی دِماغ کی تازگی ) اور اپنے اسلامی بھائیوں سے ناپسندیدہ بُودُور کرنے کی نیّتیں ہوں تو ہر نیّت کاالگ ثوابملے گا۔ (اشعۃاللمعات ج۱ص۷۳)
خوشبو لگانے میں اکثر شیطان غَلَط نیّت میں مُبتلا کر دیتاہے ،لہٰذا اگر کوئی اِس نیت سے خوشبو لگاتا ہے کہ لوگ واہ واہ کریں ،جدھر سے گزروں خوشبو مہک