Brailvi Books

گلوکار کیسے سدھرا
7 - 31
سبز سبز عماموں کے تاج سجائے دیکھ کر میری حیرت اور خوشی کی انتہا نہ رہی اور یہ سوچ کر اپنے آپ پر ندامت ہونے لگی کہ آخر یہ بھی تو میری طرح نوجوان ہیں مگر انہوں نے ’’جوانی دیوانی ہوتی ہے ‘‘ کے مصداق میری طرح اپنی جوانی کے قیمتی لمحات کو نادانی والے کاموں میں برباد کرنے کے بجائے رضائے الٰہی کے حصول کے لیے وقف کر رکھا ہے۔ خیر میں بھی ان عاشقانِ رسول کے قر ب کی بر کتیں لوٹنے لگا۔ یہاں مجھے وہ قلبی سکون ملا جو آج سے پہلے کبھی نصیب نہیں ہوا تھا۔ اجتماع کے اختتام پر ایک مبلغ دعوتِ اسلامی نے مجھ پر انفرادی کوشش کی تو ان کے ترغیب دلانے پر میں راہِ خدا میں مدنی قافلے کا مسافر بن گیا۔ قافلے میں بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا اور یوں میری زندگی میں ایک نمایاں تبدیلی آنے لگی مگر اس سب کے باوجود ابھی تک میرے دل و دماغ سے عالمی شہرت یافتہ گلوکار اور فنکا ر بننے کا خمار مکمل طور پر نہیں اترا تھا۔ ایک روز ایک مبلغ دعوتِ اسلامی نے مجھے شیخِ طریقت، امیرِ اہلسنّت دَامَت بَرَکاتُہُمُ العَالیَہ کے بیان کی کیسٹ بنام ’’مردے کی بے بسی‘‘ تحفۃً دی جسے سن کر مجھ پر رقت طا ری ہو گئی۔ میرے جسم کا رُواں رُواں کانپ اُٹھا گناہوں پر ندامت کی وجہ سے میری آنکھوں سے بے اختیار آنسو جاری ہو گئے اور میری ہچکیاں بندھ گئیں۔ موت کے