کے ساتھ ساتھ فنکاری اور گلوکاری کا بھوت ہر وقت میرے سر پر سوار رہتا اوراپنے اس مقصد میں کامیابی کے لئے تو میں رات دن تگ و دو کرتا رہتا، بالآخر مجھے کامیابیاں ملنے لگیں لہٰذا میں اسٹیج ڈراموں اور مختلف ٹی وی چینلز کے پروگراموں میں اپنی مسحور کُن آواز سے لوگوں کو متأثر کرنے لگا۔ جب لوگ مجھے دادِ تحسین سے نوازتے تو میں خوشی سے پھولا نہ سماتا اور جس روز مجھے ’’تیلگو‘‘ فلم میں ہیرو کے ساتھ ایک فلمی رول ادا کرنے کا موقع ملا اس روز تو میری خوشی کا کوئی ٹھکانا نہ تھا کیونکہ یہ میرا برسوں پرانا خواب تھا جو اب شرمندۂ تعبیر ہوتا دکھائی دے رہا تھا۔ غرض روز بروز کی بڑھتی ہوئی شہرت نے مجھے اس قدر اندھا کر دیا تھا کہ میں انجامِ آخرت سے یکسر غافل ہوکر شب و روز گناہوں سے نامۂ اعمال سیاہ کر رہا تھا، مگر قربان جائیے دعوتِ اسلامی کے مشکبا ر مدنی ماحول پر کہ جس نے مجھ گنہگا ر و بدکار کو اللہ عَزَّوَجَلَّ کی نافرمانی سے بچا کر نیکی
کی راہ پر گامزن کردیا۔ میری اصلاح کا سبب کچھ اس طرح بنا کہ ایک دن مدنی ماحول سے منسلک ایک اسلامی بھائی سے میری ملاقات ہوگئی، انہوں نے نہایت گرمجوشی سے ملاقات کے بعد بڑی اپنائیت سے میری خیریت دریافت کی، ان کے اس اندازِ دل رُبائی نے مجھے متأثر کردیا یہی وجہ تھی کہ جب انہوں نے دعوتِ اسلامی کے تحت ہونے والے ہفتہ وار سنّتوں بھرے اجتماع کی پر خلوص دعوت پیش کی تو میں انکار نہ کر سکا اور سنّتوں بھرے اجتماع میں شریک ہوگیا۔ وہاں متعدد اسلامی بھائیوں اور خاص طور پر نوجوانوں کو سفید لباس میں ملبوس سروں پر