غفلت بھری زندگی گزار رہا تھا، نہ نمازوں کی ادائیگی کاخیال تھا نہ اللہ عَزَّوَجَلَّ اور رسول صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی نافرمانی کا کچھ احساس۔ بس رات دن گانے باجے سننے اور فلموں ڈراموں کے حیا سوز مناظر دیکھنے میں اپنا قیمتی وقت ضائع کرتا رہتا، اپنے انہی کرتوتوں کی وجہ سے اچھی صحبت کے بجائے بری صحبت میں گرفتار تھا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پہلے پہل تو میں پریشان نظری کا شکار رہنے لگا اور پھر رفتہ رفتہ بد نگاہی کی آفت میں مبتلا ہوکر گناہوں کے راستے پر اتنا آگے نکل گیا کہ غیر محرم عورتوں سے ناجائز تعلقات قائم کرنے میں شرم وحیا بالکل آڑے نہ آتی۔ کبھی کبھار تنہائی میں یہ احساس اندر ہی اندر مجھے کھائے جاتا تھا کہ میں جو کچھ کررہا ہوں وہ غلط ہے مگر جب دوستوں کے جھرمٹ میں ہوتا تو اس احساسِ گناہ پر اوس پڑ جاتی اور میں حسب معمول گناہوں میں مبتلا ہوجاتا، اللہ عَزَّوَجَلَّ بھلا کرے شیخِ طریقت، امیرِ اہلسنّت، بانیٔ دعوتِ اسلامی حضرت علاّمہ مولانا ابوبلال محمد الیاس عطّار قادری رَضَوی دَامَت بَرَکاتُہُمُ العَالیَہ کا کہ جنہوں نے گناہوں کے سمندر میں ڈوبنے والے مجھ جیسے نجانے کتنے ہی مسلمانوں کو ہلاکت و بربادی سے بچاکر صلوٰۃ و سنّت پر عمل کرنے والا بنا دیا۔ میرے ساتھ کچھ اس طرح