الٹی سیدھی ایکٹنگ (ACTING) بھی کیا کرتا تھا۔ جب گھر والے اور میرے دوست میری تعریف کرتے تو میں خوشی سے پھولا نہ سماتا، چونکہ میرا سارا بچپن انہی فضول کاموں میں بسر ہوا تھا لہٰذا جب میں نے ہوش سنبھالا تومجھ پر ایک ہی دھن سوار تھی کہ مجھے نامور گلوکار یا مشہور فلم اسٹار بننا ہے۔ اپنے مقصد میں کامیابی پانے کے لئے میں نے کیاکیا جتن نہیں کئے، یہی وجہ تھی کہ اکثر اوقات میرے لب پر گانے کے بول ہوتے۔
میری گفتگو کا انداز ایسا ہوتا کہ جیسے کوئی اداکار فلمی ڈائیلاگ بول رہا ہو۔ وقتاً فوقتاً کالج اور دیگر مقامات پر ہونے والے بیہودہ پروگراموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتااورافسوس صد افسوس! کہ ان خلاف شرع کاموں پر نادم و شرمسار ہونے کے بجائے خوش ہوتا بلکہ میرے گانے یا ایکٹنگ پر حاضرین جب تالیاں بجا کردادِ تحسین دیتے تو میرا سر فخر سے بلند ہوجاتا۔ دن رات غفلت کی نذر ہوتے جارہے تھے۔ آخر کار میرے رب عَزَّوَجَلَّ نے مجھ پرکرم فرمایا اور مجھے دعوتِ اسلامی کا مدنی ماحول عطا فرما دیا ورنہ آخرت میں نجانے میرا کیا بنتا؟ ہوا یوں کہ دعوتِ اسلامی کے مدنی ماحول سے وابستہ ایک اسلامی بھائی نے مجھے شیخِ طریقت، امیرِاہلسنّت، بانیٔ دعوتِ اسلامی حضرت علاّمہ مولانا ابوبلال محمد الیاس عطّار قادری رَضَوی دَامَت بَرَکاتُہُمُ العَالیَہ کے بیان کی کیسٹ دی۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّوَجَلَّ مجھے وہ ایمان افروز بیان سننے کی سعادت میسر آئی اور مجھ پر یہ بات واضح ہو گئی کہ اصل کامیابی اللہ عَزَّوَجَلَّ اور آمنہ کے لال، محبوبِ ربِّ ذوالجلال صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو راضی کرنے میں