کاموں میں گزار کر اپنی آخرت کی بہتری کاسامان کرتا، زندگی کے شب و روز یونہی غفلت میں گزر رہے تھے کہ ایک دن میری ملاقات ایک مبلغِ دعوتِ اسلامی سے ہوئی، انہوں نے محبت بھرے انداز سے مصافحہ کیا اور اس طرح گفتگو کرنے لگے جیسے مجھے برسوں سے جانتے ہوں ، دورانِ گفتگو انہوں نے انفرادی کوشش کرتے ہوئے مجھے فکر آخرت کا ذہن دیا، اس نوجوان مبلغ دعوتِ اسلامی کے چہرے کی نورانیت، حیا سے جھکی نگاہیں ، بدن پر سنّت کے مطابق سفید لباس، سر پر سبز عمامہ شریف کا تاج، سنّت کے مطابق زلفیں ، گفتگو کا باادب انداز اور ملنساری دیکھ کر دل کو روحانی سکون ملا، ملاقات کے اختتام پر انہوں نے مجھے شیخِ طریقت، امیرِ اہلسنّت، بانیٔ دعوتِ اسلامی حضرت علاّمہ مولانا ابو بلال محمد الیاس عطّار قادری رَضَوی دَامَت بَرَکاتُہُمُ العَالیَہ کے بیان کی کیسٹ ’’شیطان کے چار گدھے‘‘ تحفے میں دی ،گھر جاکر میں نے وہ کیسٹ دوسری کیسٹوں کے ساتھ رکھ دی، ایک روز اپنے کمرے میں بیٹھا ہوا تھا، اچانک مجھے اس کیسٹ کا خیال آیا جو چند دن پہلے اس اسلامی بھائی نے دی تھی، میں نے وہ کیسٹ اٹھائی اور سنناشروع کر دی، بیان اس قدر پُرتاثیر اور مسحور کُن تھا کہ کچھ ہی دیر میں میں اپنے گردو پیش سے بے خبر ہوگیا، میں نے خود کو بیان میں موجود اس حدیث پاک کا مصداق پایا جس میں رسولِ پاک، صاحبِ لولاک، سیاحِ افلاک صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے برے بندے کی نشاندہی کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ’’بُرا بندہ وہ ہے جو تکبُّر