فرمَانِ مُصطَفٰے صَلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم: جس کے پاس میرا ذِکر ہوا اور اُس نے مجھ پر دُرُودِ پاک نہ پڑھا تحقیق وہ بد بخت ہوگیا۔(ابن سنی)
ہمارے پاس اِفطار کے لئے کچھ نہ تھااور نہ ہی کوئی ایسے ظاہِری اَسباب نظَر آرہے تھے کہ جن سے اِفطاری کا اِنْتِظام کیا جا سکے۔ میری اِس فکْر کو دیکھ کر حضرتِ سیِّدُنا ابراہیم بن اَدْہَم عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَکْرَم نے ارشاد فرمایا: ’’اے اِبنِ بَشّار(عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْغَفَّار)!اللہ عَزَّوَجَلَّنے غریبوں اور مِسکینوں کو دنیا و آخرت میں کس قدَر نعمتوں اور راحتوں سے سرفراز فرمایا ہےبروزِ قیامت نہ اِن سے زکوٰۃ کے بارے میں پوچھا جائے گا اور نہ حج وصدَقہ اور صلہ رحمی و حسنِ سلوک کے بارے میں حساب وکتاب ہو گا، جبکہ مال داروں سے اِن سب چیزوں کے بارے میں سُوال ہو گا۔ دنیا کے یہ امیر و سرمایہ دار آخِرت میں غریب ونادار اور محض دُنیوی عزَّت دار وہاں ذلیل وخوار ہوں گے، آپ فِکْر نہ کیجئے،اللہ عَزَّوَجَلَّ روزی کا ضامِن ہے وہ تمہارے لئے رزْق کا اِنتِظام فرمائے گا، ہم اِن دنیاوی امیروں سے زِیادہ امیر ہیں۔ دنیا و آخرت میں کامل مسرت ہمیں حاصل ہے نہ رنج و غم ہے اور نہ اس کی پر واہ کہ ہماری صبح کیسے ہوئی اور شام کیسے ؟بس شرط یہ ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی اِطاعت و فرمانبرداری کے مُعامَلے میں کوتاہی آڑے نہ آنے دیں۔ ‘‘ یہ فرماکر آپ رَحمۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِنَماز میں مشغول ہوگئے اور میں نے بھی نَماز شروع کر دی۔ تھوڑی ہی دیر بعد ایک شخص ہمارے پاس 8 روٹیاں اور بَہُت سی کھجوریں لے کر آیا اور یہ کہہ کر واپس چلا گیا کہ کھائیے! اللہ عَزَّوَجَلَّتم پر رحم فرمائے۔ حضرتِ سیِّدُنا ابراہیم بن اَدْہَم عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَکْرَمنے مجھ سے فرمایا: ’’لیجئے اور کھائیے۔‘‘ جوں ہی ہم کھانا کھانے لگے، ایک سائِل نے صدا لگائی کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے نام