جائے گا ۔ شریعت کا حکم یہ ہے کہ بُرائی کے جو اسباب بالکل ظاہر ہیں اُن سے دُور رہا جائے اور شریعت کی حدود میں رہتے ہوئے اُن سے بچا جائے جیسے کوڑھی ، بیمار اور طاعون کی وبا والے علاقے میں جانے سے پرہیز کرنا ۔ البتہ جو اسباب پوشیدہ ہوں ان سے بچنے کو جائز نہیں رکھا گیا ، کیونکہ پھر یہ بدشگونی میں آجائے گا اور بدشگونی کافروں اورمشرکوں کے اعمال میں سے ہے ، اللہ پاک نے اپنے پاک کلام قرآنِ مجید میں بدشگونی کو اصحابِ قَریہ ، قومِ ثَمود اور فرعون والوں کا عمل بتایا ہے ۔ فرمانِ مصطفے ٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمہے کہ ” بدشگونی کوئی چیز نہیں ۔ “ (1 )
حدیثِ پاک میں ہے : ” جسے بدشگونی واپس لوٹادے اس نے شرک کا ارتکاب کیا ۔ “ (2 ) حضرت سیِّدُنا عبْدُاللہ بن مسعودرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کی حدیث میں ہے کہ رسولِ انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا : بدشگونی شرک میں سے ہے ، ہم میں سے ہر ایک کے دل میں بدشگونی آتی ہے لیکن اللہ پاک اسے توکّل کی برکت سے دُور فرمادیتا ہے ۔ (3 )
یونہی ستارے دیکھ کر بُرائی کے اسباب تلاش کرنا بدشگونی میں سے ہے ، اس کھوج میں رہنے والے عام طور پر ان نیکیوں کی طرف توجہ نہیں کرتے جو بلاؤں کو ٹالتی ہیں بلکہ گھر میں پڑے رہنے اور حرکت کو چھوڑ دینے کی بات کرتے ہیں ، حالانکہ ایسا کرنا تقدیرِ الٰہی کو پورا ہونے سے روک نہیں سکتا ۔ کچھ لوگ اُلٹا گناہوں میں لگ جاتے ہیں یوں آفت کا آنا اور پختہ ہوجاتا ہے ۔ شریعت کا حکم یہ ہے کہ اس معاملے کی کھوج چھوڑ دی جائے ، اس کی طرف توجہ نہ کی جائے ، بلکہ دُعا ، ذِکْر ، صدقہ ، سچا توکل اور تقدیر پر ایمان وغیرہ جیسے اچھے کاموں میں لگ جائے جو بلاؤں ، آفتوں کو دُور کردیتے ہیں ۔
دل میں بدشگونی آئے تو کیا کہے ؟
حضرت سیِّدُنا عبْدُاللہ بن عمرو بن عاصرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ حضرت سیِّدُنا کَعْبُ الاَحْباررَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ سے ملے ، حضرت سیِّدُنا عبْدُاللہ بن عمرو بن عاص رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے فرمایا : علمِ نجوم؟ حضرت سیِّدُنا کعب الاحبار رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے جواب دیا : اس میں کچھ بھلائی نہیں ۔ حضرت سیِّدُنا عبْدُاللہ بن عمرو بن عاص رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی
________________________________
1 - بخاری ، کتاب الطب ، باب الجذام ، ۴ / ۲۴ ، حدیث : ۵۷۰۷
2 - مسند بزار ، مسند رویفع بن ثابت ، ۶ / ۳۰۰ ، حدیث : ۲۳۱۶
3 - ترمذی ، کتاب السیر ، باب ماجاء فی الطیرة ، ۳ / ۲۲۷ ، حدیث : ۱۶۲۰