Brailvi Books

فیضان صفر المظفر
8 - 29
نے رات کیا فرمایا؟ ربّ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے : میرے بندوں میں سے کچھ نے مؤمن رہتے ہوئے صبح کی ، کچھ نے کافر رہتے ہوئے ۔  جو مؤمن ہے اس نے کہا : ہمیں اللہ پاک کے فضل ورحمت سے بارش عطا ہوئی ۔  یہ مجھ پر ایمان رکھتا ہے اور ستاروں ( کی تاثیر) سے کفر وانکارکرتا ہے جبکہ کافر نے کہا : ہمیں تاروں کی اِس اِس چال سے بارش ملی ۔  یہ مجھ سے کفر کرتا ہے اور ستاروں ( کی تاثیر) پر ایمان رکھتا ہے ۔ (1 ) 
حضرت سیِّدُنا ابو ہریرہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ  بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی پاکصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا : مرض اُڑ کے لگنا کوئی چیز نہیں ، ہامہ کوئی چیز نہیں ، تاروں کی چال کوئی چیز نہیں ، صَفر کوئی چیز نہیں ۔ (2 ) 
اس حدیثِ پاک سے بھی یہی پتہ چلتا ہے کہ اللہ پاک کی تقدیر کے بغیر ان اسباب کی خود بخود تاثیر کا رد کرنا مقصود ہے ، لہٰذا جو کسی نعمت کو اللہ پاک کے علاوہ کسی اور کی طرف منسوب کرے اور عقیدہ یہ رکھے کہ یہ نعمت اللہ کی طرف سے نہیں ہے تو وہ حقیقی مشرک ہے اور اگر یہ عقیدہ ہو کہ یہ اللہ پاک کی طرف سے ہے ( ساتھ ہی اسباب میں بھی تاثیر مانے ) تو یہ شرکِ خفی کی ایک قسم ہے ۔  
﴿2﴾ شر کے اسباب : انہیں گناہوں کی طرف ہی منسوب کیا جائے گا کیونکہ سب آفتیں گناہوں کے سبب ہیں ۔  ارشادِباری تعالیٰ ہے : 
وَ مَاۤ اَصَابَكَ مِنْ سَیِّئَةٍ فَمِنْ نَّفْسِكَؕ      ( پ۵ ، النسآء : ۷۹)
ترجمۂ کنز الایمان : اور جو بُرائی پہنچے وہ تیری اپنی طرف سے ہے ۔
	دوسری جگہ فرمایا : 
وَ مَاۤ اَصَابَكُمْ مِّنْ مُّصِیْبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ اَیْدِیْكُمْ ( پ۲۵ ، الشورٰی : ۳۰)
ترجمۂ کنز الایمان : اور تمہیں جو مصیبت پہنچی وہ اس کے سبب سے ہے جو تمہارے ہاتھوں نے کمایا ۔
بُرائیاں گناہوں کی نحوست ہیں : 
لہٰذا بُرائی کے اسباب کو گناہوں کے علاوہ کسی اور چیز مثلاً بیماری اُڑ کر لگنا وغیرہ کی طرف منسوب نہیں کیا 



________________________________
1 -    بخاری ، کتاب الاذان ، باب یستقبل الامام الناس اذا سلم ، ۱ /  ۲۹۵ ، حدیث : ۸۴۶ 
2 -    مسلم ، کتاب الطب ، باب لاعدوی ولا طیرة ولا ھامة    الخ ، ص۹۴۱ ، حدیث : ۵۷۹۴