قُلُوْبُكُمْۚ وَ مَا النَّصْرُ اِلَّا مِنْ عِنْدِ اللّٰهِؕ ( پ۹ ، الانفال : ۱۰)
لئے کہ تمہارے دل چین پائیں اور مدد نہیں مگر اللہ کی طرف سے ۔
نیک فال :
نیک فال سے خوش ہونا بھی اسی قبیل سے ہے ۔ نیک فال اس اچھی بات کو کہتے ہیں جسے حاجت مند کسی کے منہ سے سُنے ۔ اکثر لوگ قلبی طور پر اسباب ہی کی طرف جھک جاتے ہیں اور خالقِ اسباب کو بھول جاتے ہیں اور جو ایسا کرتا ہے اسے اکثر اسباب کے رحم وکرم پر ہی چھوڑ دیا جاتا ہے اور پھروہ رُسوا ہوتا ہے کیونکہ سب نعمتیں تو اللہ پاک کی طرف سے اور اس کے فضل واحسان سے ہیں جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
مَاۤ اَصَابَكَ مِنْ حَسَنَةٍ فَمِنَ اللّٰهِ٘- ( پ۵ ، النسآء : ۷۹)
ترجمۂ کنز الایمان : اے سننے والے تجھے جو بھلائی پہنچے وہ اللہ کی طرف سے ہے ۔
ایک اور مقام پر ارشاد ہوتا ہے :
وَ مَا بِكُمْ مِّنْ نِّعْمَةٍ فَمِنَ اللّٰهِ ( پ۱۴ ، النحل : ۵۳)
ترجمۂ کنز الایمان : اور تمہارے پاس جو نعمت ہے سب اللہ کی طرف سے ہے ۔
اور جیسا کہ شاعر نے کہا :
لَا نِلْتُ خَیْرًا مَا بَقِیْــتُ وَلَا عَدَانِی الدَّہْرَ شَرُّ
اِنْ کُنْتُ اَعْلَمُ اَنَّ غَیْــرَ اللہِ یَنْفَعُ اَوْ یَضُرُّ
ترجمہ : اگر میں یہ یقین رکھتا کہ اللہ پاک کے علاوہ کوئی اور بھی نفع نقصان دیتا ہے تو مجھے زندگی بھر نہ کوئی بھلائی ملتی اورنہ زمانے بھر برائی مجھ سے الگ ہوتی ۔
نعمتیں اللہ پاک کی ہیں :
نعمتوں کی نسبت اسباب کی طرف نہیں کی جائے گی بلکہ ان کو پیدا کرنے اور مقدر کرنے والے اللہ پاک کی طرف منسوب کیا جائے گا جیسا کہ حدیث پاک میں ہے : حضورِ پُرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے بارش کے بعد صبح کی نماز میں صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کی امامت فرمائی ، پھر ارشاد فرمایا : کیا تُم جانتے ہو کہ تمہارے ربّ