توکل خود ایک بڑا سبب ہے :
ٍ حضرت سیِّدُنا امام احمد بن حنبل رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے نزدیک قوی توکل والے کے لئے یہ تمام معاملات جائز ہیں ، کیونکہ توکل ان بڑے اسباب میں سے ہے جس کے ذریعے منافع حاصل ہوتے اور تکلیف دہ چیزیں دور ہوتی ہیں ۔ جیسا کہ حضرت سیِّدُنا فضیل بن عیاض رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے فرمایا : اگر تیری طرف سے یہ بات علم الٰہی میں ہو کہ تیرے دل سے تمام مخلوق کا خیال نکل چکا ہے تو وہ تیری ہر مراد پوری فرما دے گا ۔
اسی لئے سیِّدُنا امام احمد بن حنبل رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے توکل کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا : مخلوق سے بالکل ناامید ہوکر آرزو کو جڑ سے ختم کر دینا توکل ہے ۔ کسی نے آپ سے کہا : اس پردلیل کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا : حضرت سیِّدُنا ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلَاةُ وَ السَّلَام کافرمان دلیل ہے کہ آپ کو نارِنمرود میں ڈالا گیا تو حضرت سیِّدُنا جبریل عَلَیْہِ السَّلَام نے آپ کے پاس آکر عرض کی : کوئی حاجت ہے ؟ تو آپ عَلَیْہِ السَّلَامنے فرمایا : تم سے کوئی نہیں ہے ۔
ظاہری اسباب کا ترک کرنا اس شخص کے لئے ہی مشروع ہے جس کے پاس ان کے بدلے باطنی سبب ہو اور وہ باطنی سبب سچے توکل کا پایا جانا ہے کیونکہ یہ ظاہری اسباب سے زیادہ قوی اور زیادہ نفع مند ہے ۔
توکل کی مختصر مگر جامع وضاحت :
توکل علم اور عمل کا مجموعہ ہے ۔ علم سے مراد دل کا اس بات کو جاننا کہ نفع و نقصان کا مالک اکیلا اللہ پاک ہے ۔ اسے عام مومنین بھی جانتے ہیں جبکہ عمل سے مراد اللہ تعالیٰ پر دل کا پختہ یقین کرنا اور اس کے سوا ہر ایک سے خالی ہونا ہے ۔ یہ بہت کم پایا جاتا ہے اور خاص مومنوں کے ساتھ مختص ہے ۔
اسباب دو طرح کے ہیں :
﴿1﴾ خیر کے اسباب : ان پر خوش ہونا اورخوشخبری دینا شریعت میں درست ہے ، ہاں! ان پر بھروسا نہ کرلے بلکہ خالقِ اسباب ربّ تعالیٰ پر ہی بھروسا رکھے ، اللہ پاک پر توکل اور ایمان رکھنے کا یہی معنی ہے ۔ جیساکہ اللہکریم نے فرشتوں کے ذریعے مدد کے متعلق ارشادِفرمایا :
وَ مَا جَعَلَهُ اللّٰهُ اِلَّا بُشْرٰى وَ لِتَطْمَىٕنَّ بِهٖ
ترجمۂ کنز الایمان : اور یہ تو اللہ نے کیا مگر تمہاری خوشی کو اور اس