Brailvi Books

فیضان صفر المظفر
5 - 29
حَتّٰۤى اِذَاۤ اَقَلَّتْ سَحَابًا ثِقَالًا سُقْنٰهُ لِبَلَدٍ مَّیِّتٍ فَاَنْزَلْنَا بِهِ الْمَآءَ فَاَخْرَجْنَا بِهٖ مِنْ كُلِّ الثَّمَرٰتِؕ- ( پ۸ ، الاعراف : ۵۷)
ترجمۂ کنز الایمان : یہاں تک کہ جب اٹھالائیں بھاری بادل ہم نے اُسے کسی مُردہ شہر کی طرف چلایا پھر اس سے پانی اُتارا پھر اس سے طرح طرح کے پھل نکالے ۔
	ایک گروہ نے کہا کہ ان کے پائے جانے کے وقت اللہکریم ان میں اثر پیدا فرماتا ہے اصلاً ان میں اثر نہیں ۔  
	بہرحال جب اللہ تعالیٰ پر توکل اور اس کی قضا وقدر پر ایمان قوی ہو ، ان اسباب کو اختیار کرنے کا پکا ارادہ ہو اور  اللہکریم پر پختہ اعتماداور اس سے پکی امید ہو کہ یہ نقصان نہیں دیں گے تو ایسی صورتِ حال میں ان اسباب کو اختیار کرنا جائز ہے ،  خاص طور پر اس وقت جب اس میں کوئی مصلحت عامہ یا خاصہ ہو ۔ 
	اسی بات پر اس حدیثِ پاک کو محمول کیا جائے گا جس میں ذکر ہے کہ حضور نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے کوڑھی زدہ شخص کا ہاتھ پکڑا اور اپنے  ساتھ اس کا ہاتھ کھانے کے پیالے میں داخل کر کے فرمایا : اللہ پر اعتماد اور توکل کرتے ہوئے اس کا نام لے کر کھاؤ ۔ ( 1) 
پختہ ایمان والے : 
	حضرت سیِّدُنا خالد بن ولیدرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہکا زہر کھانا ، حضرت سیِّدُنا سعد بن ابی وقاص رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہاور حضرت سیِّدُنا ابو مسلم رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کا لشکر کو لے کر سطح سمندر پر چلنا ، امیرالمؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہکا حضرت سیِّدُنا تمیم داری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کو مقامِ حُرَّہ سے نکلنے والی آگ کو لوٹانے کا حکم دینا اور ان کا آگ کے پاس اس غار کے اندر تک جانا جہاں سے وہ نکلی تھی ، یہ تمام امور فقط خاص لوگوں کے حق میں صحیح ہیں جن کااللہ اور اس کی قضا و قدر پر ایمان ، توکل اور اعتماد مضبوط ہوتا ہے ۔  
	اور زادِ راہ کے بغیر صحرا میں داخل ہونا بھی اس کی نظیر ہے کیونکہ یہ اس کے لئے جائز ہے جس کا خصوصی طور پر یقین اور توکل اللہ پر قوی ہو ۔  حضرت سیِّدُنا امام احمد و حضرت سیِّدُنااسحاق رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہما اور ان کے علاوہ اَئمہ نے اس پر نص وارد کی ۔ نیز کمانے اور علاج کرنے کو چھوڑنا بھی ایسا ہی ہے ۔ 



________________________________
1 -    ترمذی ، کتاب الاطعمة ، باب ماجاء فی الاکل مع المجذوم ، ۳ /  ۳۲۰ ، حدیث : ۱۸۲۴