Brailvi Books

فیضان صفر المظفر
16 - 29
دوسرا قول : زمانَۂ جاہلیت میں لوگ صفر المظفر کو منحوس سمجھتے تھے ، کہتے تھے : یہ نحوست بھرا مہینا ہے ۔  لہٰذا حضورِ انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اس خیال کو باطل قرار دیا ہے ۔  یہ قول امام ابو داود رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے حضرت سیِّدُنا محمد بن راشد مکحولی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْوَ لِی سے نقل کیا ہے اور انہوں نے اپنے شیخ سے یہ قول سُنا ۔ 
شاید یہ قول سب سے مناسب قول ہے ۔  بہت جاہل لوگ صفر المظفّر کو منحوس سمجھتے ہیں ، بعض اوقات اس مہینے میں سفر کرنے سے بھی منع کرتے ہیں ۔  صفر المظفر سے بدشگونی لینا بھی اسی بدشگونی میں شامل ہے جس سے شریعتِ مطہّرہ میں منع کیا گیا ہے ۔  یونہی کسی دن مثلاً بُدھ کے دن سے بدشگونی لینا بھی ممنوع ہے ۔ 
بدھ کے دن دعا کی قبولیت : 
ایک روایت میں آیا ہے کہ یہ ہمیشہ کی نحوست والا دن ہے لیکن یہ روایت غیر صحیح ہے بلکہ اس کے برعکس حضرت سیِّدُنا جابر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ  سے روایت ہے کہ حضورِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے کفّار کے گروہوں کے خلاف پیر ، منگل اور بدھ کے دن دُعائے ضَرَر فرمائی ، بُدھ کے دن ظہر اور عصر کے درمیان دُعائے مصطفے ٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو قبولیت کا سہرا عطا ہوا ۔  حضرت سیِّدُنا جابر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ  فرماتے ہیں : پھر مجھے جب بھی کوئی اہم اور تکلیف دہ معاملہ پیش آیا میں نے اسی ( بدھ کی ظہر وعصر کے درمیانی) وقت کا انتظار کیا اور اس وقت بارگاہِ الٰہی میں دُعا کی تو میں نے قبولیت دیکھی ۔ (1 ) 
یونہی زمانَۂ جاہلیت میں لوگ خاص شادی کے معاملے میں ماہِ شوّال کو منحوس سمجھتے تھے ، اس کی ایک وجہ یہ بتائی گئی کہ کسی سال شوّال کے مہینے میں طاعون کی وبا آئی تھی جس میں بہت سی دُلہنوں کی موت ہو گئی ، لہٰذا جاہلیت والوں نے اسے بُرا شگون قرار دے دیا ، شریعتِ مُطہَّرہ میں اس خیال کو باطل قرار دیا گیا ہے ۔  چنانچہ 
ماہِ شوال میں نکاح : 
اُمُّ المؤمنین حضرت سیِّدَتُنا عائشہ صدیقہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا فرماتی ہیں : حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے مجھ سے شوّال میں نکاح فرمایا ، شوّال میں ہی رخصتی ہوئی ، اب بھلا بتاؤ!مجھ سے زیادہ کون سی زوجہ کو حضورِ



________________________________
1 -    مسند احمد ، مسند جابر بن عبدالله ، ۵ /  ۸۷ ، حدیث : ۱۴۵۶۹