کے بغیر ہی جانوروں کے جسموں میں حلول کرجاتی ہیں ۔ یہ سب خیالات باطل ہیں ، دینِ اسلام نے ان کے باطل اور جھوٹ ہونے کو واضح فرمایا ہے ۔ ہاں! شریعتِ مطہّرہ میں یہ ضرور ہے کہ ” شہیدوں کی روحیں سبز پرندوں کے پوٹوں میں رہتے ہوئے جنتی پھل کھاتی ہیں وہاں کی نہروں پر جاتی ہیں یہاں تک کہ اللہ پاک قیامت کے دن انہیں ان کے جسموں میں لوٹادے گا ۔ “ ( 1) یہ بھی روایت ہے کہ ” مؤمن کی رُوح ایک پرندہ ہے جو جنت کے درخت سے لٹک جاتا ہے یہاں تک کہ قیامت کے دن اللہ پاک ان روحوں کو جسموں میں لوٹادے ۔ “ (2 )
حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا جو فرمان ہے کہ ” صفر کوئی چیز نہیں ۔ “ اس ارشاد گرامی کی وضاحت میں اختلاف ہے ۔ اکثر متقدمین علمائے کرام فرماتے ہیں : صفر پیٹ کی ایک بیماری ہے ، کہا جاتا ہے اس بیماری میں پیٹ کے اندر سانپ جتنے بڑے کیڑے پڑجاتے ہیں ، جاہلیت کے زمانے میں لوگوں کا خیال تھا کہ یہ بیماری اُڑ کر لگتی ہے لہٰذا حضورِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اس کی نفی فرمائی ۔
اس بات کے قائلین میں سیِّدُنا امام ابنِ عُیَیْنَہ اور سیِّدُنا امام احمد بن حنبل رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِما وغیرہ حضرات شامل ہیں ۔ لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہی بات ہوتی تو یہ معاملہ اس فرمان کہ”بیماری اُڑ کر لگنا کوئی چیز نہیں ۔ “ میں آجاتا ۔ اس کا جواب یہ دیا جاسکتا ہے کہ مذکورہ بالا فرمان کے ضمن میں آجانے کے باوجود اس بیماری کا علیحدہ ذکر کیا گیا ہے کیونکہ یہ بیماری لوگوں میں خاص طور پر اُڑ کر لگنے کے حوالے سے مشہور تھی ۔
صفر کا مہینہ منحوس نہیں :
ایک جماعت کا کہنا ہے کہ یہاں صفر سے مُراد ماہِ صفر المظفر ہے ۔ پھر آگے اس کی وضاحت میں بھی بَربِنائے اختلاف دو قول ہیں :
پہلا قول : زمانَۂ جاہلیت میں لوگ مہینے پیچھے ہٹاتے تھے اور محرّم الحرام کی حرمت ختم سمجھ کر اس کے بدلے میں صفر المظفّر کو حرمت والا مہینا قرار دیتے تھے ، تو حدیثِ پا ک میں اس رَوِش سے منع فرمایا گیا ۔ یہ امام مالک رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کا قول ہے ۔
________________________________
1 - مسلم ، کتاب الامارة ، باب بیان ان ارواح الشھداء فی الجنة الخ ، ص۸۰۷ ، حدیث : ۴۸۸۵
2 - نسائی ، کتاب الجنائز ، باب ارواح المومنین ، ص۳۴۸ ، حدیث : ۲۰۷۰