Brailvi Books

فیضان صفر المظفر
14 - 29
سے کسی کام سے رُک گیا تو اکثر ایسا ہوتا ہے کہ وہ اُسی مصیبت میں مبتلا ہوجاتا ہے ، جیسا کہ حضرت سیِّدُنا عبْدُاللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ  نے فرمایا اور حضرت سیِّدُنا انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ  کی گزشتہ حدیث بھی یہی بتاتی ہے ۔  اور جیسے کوئی شہر میں طاعون کی وبا پڑنے پر ( حکمِ شریعت کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ) وہاں سے بھاگ آیا تو بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ وہ طاعون سے بچ جائے ۔  اگلوں اور بعد والوں میں بہت ایسے لوگ گزرے ہیں جو طاعون سے بھاگے لیکن آخرِ کار طاعون میں مبتلا ہوہی گئے ، انہیں بھاگنا کام نہ آیا ۔  ارشادِ خداوندی ہے : 
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ خَرَجُوْا مِنْ دِیَارِهِمْ وَ هُمْ اُلُوْفٌ حَذَرَ الْمَوْتِ۪- فَقَالَ لَهُمُ اللّٰهُ مُوْتُوْا۫- ثُمَّ اَحْیَاهُمْؕ- ( پ۲ ، البقرة : ۲۴۳)
ترجمۂ کنز الایمان : اے محبوب کیا تم نے نہ دیکھا تھا انہیں جو اپنے گھروں سے نکلے اور وہ ہزاروں تھے موت کے ڈر سے تو اللہ نے ان سے فرمایا مرجاؤ پھر انہیں زندہ فرمادیا ۔
اگلے زمانے کے بہت لوگوں کے بارے میں آیا ہے کہ وہ طاعون سے بھاگے لیکن آخرِ کار طاعون کے مرض میں مبتلا ہو ہی گئے ۔ 
اگلے زمانے میں ایک آدمی طاعون کی وبا سے بھاگ رہا تھا ، رات کا وقت تھا ، وہ گدھے پر سوار جارہا تھا ، اتنے میں کسی کہنے والے کی آواز سُنائی دی : 
لَنْ یُسْبَقَ اللہُ عَلٰی حِمَارٍ		وَلَا عَلٰی ذِیْ مَیْعَۃٍ مُطَارِ
اَنْ یَاْتِیَ الْحَتْفُ عَلٰی مِقْدَارٍ		قَدْ یُصْبِحُ اللہُ اَمَامَ السَّارِی
	ترجمہ : ہرگز کوئی گدھے پر سوار ہو کر اللہ پاک کی تقدیر سے آگے نہیں نکل سکتا اور نہ ہی تیز بہاؤ والی سبک رفتار سواری پر دُور بھاگ سکتا ہے کہ موت اپنے وقت پر نہ آئے ، کبھی جانے والا خود اللہ پاک کی تقدیر کی طرف بڑھ رہا ہوتا ہے ۔ 
بالآخریہی ہوا کہ وہ بھاگنے والا طاعون میں مبتلا ہوا اور مرگیا ۔ 
روحیں حُلول نہیں کرتیں : 
حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا فرمان ” ہامہ کوئی چیز نہیں ۔  “  یہ فرمانِ ہدایت نشان زمانَۂ جاہلیت کے اس عقیدے کی نفی کرتا ہے جو لوگوں میں مشہور تھا کہ آدمی مرجاتا ہے تو اس کی رُوح یا ہڈیاں ” ہامہ “  نامی پرندہ بن جاتی ہیں ۔  یہ تَناسُخ ( یعنی آواگون) کے عقیدے جیسا ہے کہ مُردوں کی روحیں قیامت میں اٹھائے جانے