اور کامل بھروسا ۔ کیونکہ شر کے اسباب ، شرہی کا تقاضا کرتے ہیں مگر یہ ضروری نہیں کہ اسباب پائے جائیں تو لازمی شر بھی پہنچے گا ، بلکہ کچھ رکاوٹیں ان اسباب کو دُور کرسکتی ہیں ، چنانچہ نیک اعمال ، تقوی پرہیزگاری ، دُعا اور توکل بُرائیاں ٹالنے کے لئے بہت زیادہ کار آمد ہیں ۔
اگلے زمانے کا ایک فلسفی کہتا ہے : عبادت خانوں میں ، جُدا زبانوں میں ، آوازوں کی گونج ، گھومتے آسمانوں کی لگائی گرہیں کھول دیتی ہیں ۔ یہ فلسفیوں کا اپنا خیال اور عقیدہ ہے ۔
عذاب کے آثار ڈراوا ہیں :
مسلمانوں کا عقیدہ یہ ہے کہ اللہ پاک تنہا جو چاہے کرتا ہے ، لیکن وہ عذاب کے اسباب بھی بناتا ہے اور رحمت کے اسباب بھی بناتا ہے ، عذاب کے اسباب سے اپنے بندوں کو ڈراتا ہے تاکہ وہ توبہ کریں اور اللہ پاک کی بارگاہ میں گڑگڑائیں جیسے سورج گرہن اور چاند گرہن؛ یہ اللہ پاک کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں جن سے وہ اپنے بندوں کو ڈراتا ہے تاکہ توبہ کرنے والوں کی جانچ فرمائے ، اس سے معلوم ہوا کہ سورج گرہن اور چاند گرہن وہ سبب ہیں جن سے عذاب آنے کا خوف ہوتا ہے ۔
حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اُمُّ المؤمنین حضرت سیِّدَتُنا عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا کو حکم فرمایا کہ وہ چاند کے شر سے اللہ پاک کی پناہ مانگیں اور ارشاد فرمایا : یہ اندھیری ڈالنے والا ہے جب ڈوبے ۔ (1 ) اللہ پاک نے ” اندھیری ڈالنے والا جب ڈوبے “ اس کے شر سے پناہ مانگنے کا حکم ارشاد فرمایا ہے ، یہ رات ہے جب اندھیرا ہوجائے کیونکہ اس وقت انسانی وجناتی شیطان پھیل جاتے ہیں ۔ چاند سے پناہ مانگنے کا حکم اس لئے ہے کہ یہ رات کی نشانی ہے اور اس بات میں اشارہ ہے کہ رات کا ڈراؤنا شر چاند نکل آنے سے دُور نہیں ہوجاتا اور دن کی طرح نہیں ہوجاتا بلکہ چاندنی رات میں بھی خُدا کی پناہ مانگی جائے ۔
آندھی آثارِ عذاب میں سے ہے :
حضرت سیِّدُناجابررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ بیان کرتے ہیں کہ رسولُ اللہصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد
________________________________
1 - ترمذی ، کتاب التفسیر ، باب ومن سورة المعوذتین ، ۵ / ۲۴۰ ، حدیث : ۳۳۷۷