Brailvi Books

فیضانِ ربیع الاول
6 - 85
کنز الایمان: اللہ لکھ چکا کہ ضرور میں غالب آؤں گا اور میرے رسول ۔ ) حضرت سیِّدُنا ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ  بیان کرتے ہیں، بارگاہِ رسالت میں صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان نے عرض کی: یارسولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم!  آپ کے لئے نبوت کب ثابت ہوئی؟ ارشاد فرمایا: ”جبکہ آدم عَلَیْہِ السَّلَام رُوح اور جسم کے درمیان تھے ۔  “ (1)
مقصودِ تخلیقِ کائنات: 
حضرت سیِّدُنا امام شعبی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ بیان کرتے ہیں، ایک شخص نے بارگاہِ رسالت میں عرض کی: آپ کب نبی بنائے گئے ؟ ارشاد ہوا: ”جبکہ آدم عَلَیْہِ السَّلَام رُوح اور جسم کے درمیان تھے ، جب مجھ سے عہد لیا گیا ۔  “ (2) اس روایت سے پتہ چلتا ہے کہ حضور رَحْمۃٌ لِّلْعالَمین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اُس وقت آدم عَلَیْہِ السَّلَام کی پُشت سے  الگ  فرمائے گئے ، منصبِ نبوّت پر فائز کئے گئے اورآپ سے عہد لیا گیا ۔ یہ روایت اس بات کی دلیل بن سکتی ہے کہ حضرت سیِّدُنا آدم عَلٰی نَبِیِّنَاوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے جسم میں رُوح پھونکے جانے سے پہلے آپ کی پُشت سے اولادِ آدم کو نکالا گیا اور اُن سے عہد لیا گیا ۔ یہ بات حضرت سیِّدُنا سلمان فارسی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ  اور دیگر بزرگوں سے مروی ہے نیزاس بات پر درج ذیل فرمانِ الٰہی کے ظاہر سے بھی دلیل لی جاسکتی ہے : 
وَ لَقَدْ خَلَقْنٰكُمْ ثُمَّ صَوَّرْنٰكُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ ﳓ (پ۸، الاعراف: ۱۱)
ترجمۂ کنز الایمان: اور بے شک ہم نے تمہیں پیدا کیا پھر تمہارے نقشے بنائے پھر ہم نے ملائکہ سے فرمایا کہ آدم کو سجدہ کرو ۔
	اس کی تفسیر میں امام مجاہدوغیرہرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہم کہتے ہیں: مُراد یہ ہے کہ حضرت سیِّدُنا آدم عَلٰی نَبِیِّنَاوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے لئے فرشتوں کو سجدے کا حکم دینے سے پہلے اولادِ آدم کوآپ کی پُشت سے نکالا گیا ۔ لیکن اکثر علمائے سلف فرماتے ہیں: حضرت سیِّدُناآدم عَلَیْہِ السَّلَام کے جسم مبارک میں رُوح پھونکے جانے کے بعد اولادِ آدم کو نکالا گیا، زیادہ تر احادیثِ مبارکہ اسی پر دلالت کرتی ہیں ۔ اس قول کے مطابق ہوسکتا ہے کہ رُوح پھونکے جانے سے پہلے صرف حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو پُشتِ آدم سے  الگ کیا گیا ہوکیونکہ حضور رحمت عالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہی نوعِ انسانی کی تخلیق میں اصل مقصود ہیں اور ساری انسانیت کا خلاصہ اور عمدہ



________________________________
1 -      ترمذی، کتاب المناقب، باب فی فضل النبی، ۵ /  ۳۵۱، حدیث: ۳۶۲۹
2 -     الطبقات لابن سعد، ذکر نبوة رسول الله، ۱ /  ۱۱۸