Brailvi Books

فیضانِ ربیع الاول
14 - 85
 کوئی کتاب دیکھ کر نہیں پڑھی اوراپنے مبارک ہاتھ سے کبھی کچھ نہیں لکھا تھا جیساکہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے : 
وَ مَا كُنْتَ تَتْلُوْا مِنْ قَبْلِهٖ مِنْ كِتٰبٍ وَّ لَا تَخُطُّهٗ بِیَمِیْنِكَ (پ۲۱، العنکبوت: ۴۸) ترجمۂ کنز الایمان: اور اس سے پہلے تم کوئی کتاب نہ پڑھتے تھے اور نہ اپنے ہاتھ سے کچھ لکھتے تھے ۔
نہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اپنی قوم کے شہروں سے کہیں اور جاکے دوسرے لوگوں کے پاس قیام فرمایا کہ اُن سے کچھ سیکھ لیا ہو بلکہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم بے پڑھی قوم کے درمیان شانِ اُمّی ہی سے جلوہ فرما رہے کہ  نہ کچھ  لکھتے تھے اور نہ پڑھتے تھے ، حتّٰی کہ عمرِ مبارک کے 40 سال  یونہی پُورے فرمائے ، پھر یہ روشن کتاب قرآنِ حکیم، یہ واضح راستہ اور یہ سیدھا دِین لے کر آئے جس کے بارے میں دنیا کے ماہرین ومحققین نے اعتراف کیا کہ جہان کے دروازے پر اس سے عظیم دستور کی دستک کبھی سُنائی نہ دی اوراس میں حضورِاکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے سچاہونے   کی ایک واضح وظاہردلیل ہے ۔ 
دوسرا فائدہ: یہاں یہ سمجھایا گیا ہے کہ جن لوگوں میں حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو مبعوث فرمایا گیا وہ اَن پڑھ لوگ بالخصوص اہلِ مکہ  آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے اونچے حسب ونسب، ذاتی شرافت، سچائی، امانت داری، پارسائی اور پاک دامنی کو اچھی طرح جانتے ہیں اور یہ کہ آپ اُن کے درمیان جانے پہچانے بڑے ہوئے ہیں اور آپ نے کبھی بھی جھوٹ نہیں بولا تو بھلا کیسے ہوسکتا ہے کہ لوگوں پر تو جھوٹ نہ بولیں  مگر مَعَاذَاللہ خُدائے پاک پر جھوٹ باندھیں؟!  یہ خیال بالکل غلط اور باطل ہے ، ایسا ہو ہی نہیں سکتا ۔ یہی وجہ ہے کہ  روم کے بادشاہ ہِرَقْل نے (حضرت سیِّدُنا ابو سفیان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ  سے جو اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے ) حضور نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے انہی اوصاف کے متعلق پوچھا تھا اور (جب اُنہوں نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے  یہ مبارک اوصاف بیان کیے تو) ہِرَقْل نے ان باتوں کو رحمتِ عالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے دعوائے نبوّت ورسالت میں سچا ہونے کی دلیل  بنایا ۔ 
قرآنِ پاک کی عظمت وشان: 
مذکورہ آیات میں اس فرمانِ الٰہی(یَتْلُوْا  عَلَیْهِمْ  اٰیٰتِهٖ   یعنی جو (رسول) اُن پر اُس کی آیتیں پڑھتا ہے ) سے مُراد ہے کہ یہ رسول اُن لوگوں کے سامنے اللہ پاک کی نازل کردہ آیات تلاوت فرماتے ہیں اور وہ قرآن کریم ہے جو