Brailvi Books

فیضانِ ریاض الصالحین
41 - 627
نورِ مصطفیٰصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی چمک
	چناچہ حضرتِ سَیِّدُنا عَبْدُ الْمُطَّلِب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اَبْرَھَہ کی طرف گئے۔ ابرھہ کو آپ کی آمد کی اطلاع دیتے ہوئے اُس کے ایک وزیر انیس سَائِسُ الْفِیْل نے کہا: سیدِقریش اورعِیْرِمَکَّہ(مکہ کے قافلوں ) کا سردار آیاہے جولوگوں کوگھروں میں اوروُحُوش(جنگلی جانوروں )کو پہاڑوں کی چوٹیوں پرکھاناکھلاتاہے۔وہ راست گُفتار، کریم طبیعت،نیک رُو،باسِیادَت وباسَخاوت اور باہَیبَت انسان ہے۔اوراس(کی پیشانی)سے ایسانورچمَکتاہے جو مرعوب کردینے والاہے۔یعنی نورِمصطفیٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّماُن کی پیشانی میں چمَکتاہے۔(روح البیان، پ۳۰، الفیل، تحت الایۃ:۱، ۱۰/۵۱۳)یہ سن کراَبرَہَہ نے اپنا تخت خوب سجایااوربڑے رُعب سے اس پربیٹھ گیا۔ وہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کواپنے ساتھ تخت پربٹھانااپنی کسرِشان سمجھتاتھا۔لیکن جب آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ تشریف لائے تو وہ آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کی پیشانی پرنورِمصطفیٰصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی چمَک دَمَک دیکھ کربے اختیارتخت سے نیچے اترااورآپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکوتخت پربٹھاکرخودنہایت ادب سے بائیں جانب بیٹھ گیااورآنے کی وجہ دریافت کی۔آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے فرمایا: ’’میں اپنے اُونٹ لینے آیاہوں۔‘‘اَبْرَہَہ نے کہا:’’میں خانۂ کعبہ کو ڈھانے آیاہوں جوتمہارااورتمہارے باپ داداکامُعَظَّم وَمُحْتَرَممقام ہے۔بڑیتَعَجُّبْ(تَعَجْ۔جُبْ)کی بات ہے کہ تم اُس کے لیے توکچھ نہیں کہتے اوراپنے اُونٹوں کے بارے میں بات کرتے ہو ۔‘‘فرمایا:’’میں اُونٹوں کامالک ہوں اس لئے انہی کے لیے کہتاہوں اورجوکَعْبَۂ مُعَظَّمَہکامالک ہے وہ خوداس کی حفاظت اُسی طرح فرمائے گا،جیسے پہلے اسے تُبَّعْ اورسَیْف بن ذِی یَزْناورکِسرٰیسے محفوظ رکھا۔‘‘یہ سن کراَبرَہَہ نے طَیش میں آکرکہا:اس کے اونٹ واپس کردو، اب میں دیکھتاہوں مجھ سیکَعْبَہ کوکون بچاتاہے۔
	حضرت عَبْدُ المُطَّلِبرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اپنے اونٹ لے کر واپس آگئے اورقریش کوجمع کرکے انہیں مشورہ دیاکہ تم سب پہاڑوں کی گھاٹیوں اورچوٹیوں پرپناہ لے لو۔چنانچہ قریش نے ایساہی کیا۔ پھر حضرت عَبْدُ المُطَّلِب