Brailvi Books

فیضانِ ریاض الصالحین
38 - 627
میں سے صرف ’’شُرَیْد‘‘ نامی شخص زندہ بچے گا جو باقی لوگوں کو اس کی خبر دے گا ۔(فتح الباری،کتاب البیوع،باب ماذکرفی الاسواق، ۵/۲۹۲، تحت الحدیث:۲۱۱۸)عَلَّامَہ اِبْنِ بَطَّالعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ ذِی الْجَلَال شرحِ بخاری میں فرماتے ہیں کہ جس نے فتنہ یا مَعْصِیَت (گناہ) میں کسی قوم کا ساتھ دیکر ان کی تعداد بڑھائی ، اسے بھی ان کے ساتھ عذاب دیا جائے گاجبکہ انہیں اس کام پر مجبور نہ کیا گیا ہو۔(شرح ابن بطال، کتاب باب ما ذکر فی الاسواق، ۶/۲۵۰، تحت الحدیث:۲۱۱۸)
  	شارح بخاری حضرت علامہ سید محمود احمد رضوی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی فیوض الباری میں فرماتے ہیں :’’جناب عائشہ (رَضِیَ  اللہُ تَعَالٰی عَنْھَا) کے سوال کرنے کامقصدیہ تھاکہ جولوگخانۂ کعبہپرچڑھائی کی نِیَّت سے آئیں گے وہ تو  مجرم تھے لیکن جن کی یہ نِیَّت نہ ہو بلکہ وہ صرف خرید و فروخت کے لئے آئے ہونگے یا جو مجبور و قیدی ہوں گے اورانہیں زبر دستی لایاگیاہوگاکیاانہیں بھی دھنسادیاجائے گا؟ارشادفرمایا،سب کودھنسادیاجائے گا، مطلب یہ ہے کہ جب سیلاب آتا ہے تو اچھے اور بُرے کی تفریق کئے بغیر سب کواپنی لپیٹ میں لے لیتاہے۔ اسی طرح ان سب کو بھی عذاب الٰہی اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔البتہ بروزِقیامت ہرشخص اپنی اپنی نِیَّت پراٹھایاجائے گا۔‘‘ 
(ملخصاً فیوض الباری، ۸/ ۹۷ )
 	معلوم ہواکہ اُخروی معاملات کاتَعَلُّق نِیَّت سے ہے۔دنیامیں جوعمل جس نِیَّت سے کیاگیاآخرت میں اسی کے مطابق جزاوسزاکامعاملہ ہوگاجیساکہ حدیث مذکورمیں اس لشکر کیمُتَعَلِّقارشادہوا کہ ان میں سے ہرایک کے ساتھ اسکی نِیَّت کے مطابق معاملہ ہو گا۔اس لئے نِیَّت کی اصلاح بہت ضروری ہے۔ یہ بھی معلوم ہواکہ گناہ گاروں کی صحبت باعثِ ہلاکت ہے۔جب گناہ گاروں پرعذابِ الٰہی آتا ہے توان کی صحبت میں رہنے والے بھی عذاب کی لپیٹ میں آجاتے ہیں اگرچہ وہ گناہ گارنہ ہوں لیکن گناہوں کی نحوست ضروران تک پہنچتی ہے ۔
صحبت کابہت اثرہوتاہے
	 فرمانِ مصطفیٰصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمہے: ’’مَثَلُ الْجَلِیْسِ الصَّالِحِ وَالْجَلِیْسِ السُّوْئِ کَمَثَلِ