ہوجائیں۔ بے شک یہ فنا ہونے والا گھر ہے اسے بَقا نہیں ، یہ منزل تک پہنچنے کی سواری ہے دائمی خوشیوں کا گھر نہیں ، ختم ہوجانے والا راستہ ہے ہمیشہ رہنے کی جگہ نہیں۔ دنیامیں رہنے والوں میں سے سمجھ دار وہ ہیں جو عبادت گزار ہیں اور لوگوں میں سب سے زیادہ عقل مند وہ ہیں جو مُتَّقِی وپرہیز گار ہیں۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ فرماتا ہے:
اِنَّمَا مَثَلُ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا کَمَآءٍ اَنۡزَلْنٰہُ مِنَ السَّمَآءِ فَاخْتَلَطَ بِہٖ نَبَاتُ الۡاَرْضِ مِمَّا یَاۡکُلُ النَّاسُ وَالۡاَنْعٰمُؕ حَتّٰۤی اِذَاۤ اَخَذَتِ الۡاَرْضُ زُخْرُفَہَا وَازَّیَّنَتْ وَظَنَّ اَہۡلُہَاۤ اَنَّہُمْ قٰدِرُوۡنَ عَلَیۡہَاۤ ۙ اَتٰىہَاۤ اَمْرُنَا لَیۡلًا اَوْ نَہَارًا فَجَعَلْنٰہَا حَصِیۡدًا کَاَنۡ لَّمْ تَغْنَ بِالۡاَمْسِؕ کَذٰلِکَ نُفَصِّلُ الۡاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّتَفَکَّرُوۡنَ ﴿۲۴﴾ (پ۱۱: یونس: ۲۴)
ترجمہ کنز الایمان: دنیا کی زندگی کی کہاوت تو ایسی ہی ہے جیسے وہ پانی کہ ہم نے آسمان سے اتارا تو اس کے سبب زمین سے اگنے والی چیزیں سب گھنی ہوکر نکلیں جو کچھ آدمی اور چوپائے کھاتے ہیں یہاں تک کہ جب زمین نے اپنا سنگار لے لیا اور خوب آراستہ ہوگئی اور اس کے مالک سمجھے کہ یہ ہمارے بس میں آگئی ہمارا حکم اس پر آیا رات میں یا دن میں تو ہم نے اسے کردیا کاٹی ہوئی گویا کل تھی ہی نہیں ہم یونہی آیتیں مفصّل بیان کرتے ہیں غور کرنے والوں کے لئے ۔
اس مضمون کی اور بھی بہت سی آیات مبارکہ موجود ہیں۔اور کسی کہنے والے نے کیا خوب کہا ہے :
اِنَّ لِلّٰہِ عِبَاداً فُطَناً طَلَّقُوْا الدُّنْیا وَخَافُوْا الْفِتَنَا
نَظَرُوا فِیْھَا فَلَمَّا عَلِمُوْا اَنَّھَا لَیْسَتْ لِحَیٍّ وَطَنَا
جَعَلُوْھا لُجَّۃً وَاتَّخَذُوا صَالِحَ الاَعْمَالِ فِیْھا سُفُنَا
ترجمہ:اللہ عَزَّوَجَلَّ کے سمجھدار بندے ایسے ہیں جنہوں نے فتنے کے خوف سے دنیا کو چھوڑدیا ہے ، جب انہوں نے اس میں غور کیا توجان گئے کہ یہ ہمیشہ رہنے کی جگہ نہیں ہے تو انہوں نے دنیا کو( گہرے سمندرکی ) موج قرار دیا اوراعمالِ صالحہ کو اس میں کِشتی بنا لیا۔