Brailvi Books

فیضانِ ریاض الصالحین
16 - 627
کرتے اور ان کے فضائل ومناقب بیان فرماتے ۔ 
متعلقین کے لئے خوشخبری:
 	ایک مرتبہ امام نووی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی کے رُفَقاء نے آپ سے عرض کی : بروزِقیامت میں بھول نہ جانا۔آپ نے فرمایا:اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم !اگر اللہ عَزَّوَجَلَّ نے مجھے وہاں کوئی مقام ومرتبہ عطا فرمایا تو میں اس وقت تک جنت میں ناجاؤں گاجب تک اپنے جاننے والوں کو جنت میں داخل نہ کروالوں۔ 
 با ادب با نصیب:
	 آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکے شیخ حضرتِ سَیِّدُنا کمال اِرْبِلِیْ عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِینے ایک بار اپنے ساتھ کھانے کیلئے بلایا تو آپ نے عرض کی:یَا سَیِّدِی! میری معذرت قبول فرمائیے کیونکہ میرے ساتھ ایک عذر ہے۔شیخ نے معذرت قبول فرمالی ۔بعد میں کسی نے پوچھا کہ آپ کے ساتھ کیا عُذر تھا۔ فرمایا:مجھے خوف تھا کہ کھانے کے دوران شیخ کسی لقمے کو کھانے کا ارادہ فرمائیں اور لاعلمی میں ،میں اسے کھا جاؤں۔(اور یوں مجھ سے بے ادبی صادر ہوجائے)  (لواقح الانوا ر القد سیۃ فی بیان ا لعھودالمحمدیۃ ص۳۱)
 	 ایک مرتبہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ سے کسی مالکی شخص نے بحث کی اور سختی سے پیش آیامگر آپ نے کوئی جوابی کاروائی نہ کی ۔ جب کسی نے وجہ پوچھی توفرمایا:اس کے امام میرے امام کے شیخ ہیں اس لئے اس کے ساتھ ادب سے پیش آنا اس کے امام کے ساتھ ادب سے پیش آنے کی مانند ہے۔ (ا لمنن الکبری ۲۷۶)
اِمام نووی کی کرامات:
	آپ کے والدِ محترم حضرتِ سَیِّدُناشَرَف بن مُرِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی فرماتے ہیں :میرے بیٹے کی عمر تقریباً سات سال تھی رمضانُ المبارَک کی ستائیسویں شب وہ میرے ساتھ سویا ہوا تھاکہ اچانک اٹھ بیٹھااور مجھے جگاکر کہا: اے میرے والد محترم! یہ نور کیسا ہے جس نے پورے گھر کو روشن کردیا ہے ؟ آواز سن کرسب گھر والے جاگ گئے لیکن ہم میں