ایک خوبی بھی کسی میں پائی جائے تو وہ اس لائق ہو کہ دور دراز سے سفر کر کے اس کی زیارت کی جائے۔ (۱ )علم و عمل(۲ ) زُہد وتقویٰ (۳ ) اَمْرٌ بِالْمَعْروف ونَہْیٌ عَنِ الْمُنْکر (یعنی نیکی کی دعوت دینا اور برائیوں سے منع کرنا )
آپ حصولِ علم میں مشغولیت کے ساتھ ساتھ نوافل، مسلسل روزے، زُہد ووَرَع ،عبادت و ریاضت میں اپنے استادکی پیروی کرتے ،استاد کے وصال کے بعدعبادت وریاضت میں آپکا اِشْتِغَال مزید بڑھ گیا تھا۔
خوفِ خدا:
اَبُوعَبْداللہ بِنْ اَبُوالْفَتْح حَنْبَلِیعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی فرماتے ہیں کہ ایک رات میں نے جامعِ دمشق میں امامنَوَوِیعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی کو ایک ستون کے پیچھے اندھیرے میں انتہائی خشوع سے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا آپ پرغَم وحُزْن کی کیفت طاری تھی اور بار بار یہ آیتِ کریمہ پڑھ رہے تھے ۔
وَقِفُوْ ھُمْ اِنَّہُمْ مَّسْؤلُوْنَ (پ۲۳، الصّٰفّٰت:۲۴)
ترجمۂ کنز الایمان :اور انہیں ٹھہراؤ ،اُن سے پوچھنا ہے
ان کی درد بھری آواز میں قراٰن کریم کی تلاوت سن کر مجھے ایسی روحانیت نصیب ہوئی کہ جسے اللہ عَزَّوَجَلَّ ہی بہتر جانتا ہے۔
عاجِزی و اِنکساری:
آپ کی طبیعت میں عاجزی واِنکساری تھی ۔ حُبِّ جاہ سے خوب بچتے تھے۔ آپ نے اپنے شاگردوں سے کہہ رکھا تھا کہ سب ایک ساتھ مل کرمیرے پاس نہ آیا کرو کہیں طلباء کی کثرت کی وجہ سے میں حُبِّ جاہ میں مبتلا نہ ہوجاؤں کیونکہ نفس تو لوگوں کے ہجوم سے خوش ہوتا ہے۔
لوگ بادشاہوں سے ملنا اپنے لئے بہت بڑاانعام سمجھتے ہیں۔لیکن آپ اُمراء و حُکّام سے ہمیشہ دور رہتے ۔ ایک مرتبہ آپ صحنِ مسجد میں درس دے رہے تھے اتنے میں اطلاع ملی کہ’’ بادشاہ مسجد میں نماز کے لئے آ رہا ہے ‘‘آپ فوراً درس موقوف کر کے وہاں سے چلے گئے اور پھر پورا دن اس مسجد میں نہ آئے تاکہ بادشاہ سے ملاقات نہ کرنی پڑے ۔
تخت ِ سکندری پر وہ تھوکتے نہیں ہیں بستر لگا ہوا ہے جن کا تری گلی میں