اذان سنتے توجواب ضَروردیتے تھے ۔ (تاریخ دِمشق لابن عَساکِر ج ۴۰ ص ۴۱۲،۴۱۳ مُلَخّصاً )
اللہ عَزَّ وَجَلَّ ّکی اُن پررَحمت ہو اور اُن کے صَدْ قے ہماری مغفرت ہو۔
امین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم
گُنَہِ گداکاحساب کیاوہ اگرچِہ لاکھ سے ہیں سِوا
مگراے عَفُوّتِرے عَفْوکاتوحِساب ہے نہ شُمارہے
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
اذان واِقامت کے جواب کا طریقہ
مُؤَذِّنصاحِب کوچاہئے کہ اَذان کے کلمات ٹھہرٹھہرکرکہیں۔ اَللہُ اَکْبَرْ اَللہُ اَکْبَرْ (یوں دو کلمات ہیں مگر)دونوں مل کر( بغیر سکتہ کئے ایک ساتھ پڑھنے کے اعتبار سے ) ایک کَلِمہ ہیں ، دونوں کے بعدسکتہ کرے(یعنی چُپ ہوجائے)اورسکتہ کی مقداریہ ہے کہ جواب دینے والا جواب دے لے،سکتے کاترک مکروہ ہے اورایسی اذان کااعادہ (یعنی لوٹانا) مُستَحَبہے ۔ (دُرِّمُختار ورَدُّالْمُحتار ج۲ص۶۶) جواب دینے والے کو چاہئے کہ جب مُؤَذِّنصاحِب اَللہُ اَکْبَرْ اَللہُ اَکْبَرْ کہہ کر سَکْتہ کریں یعنی خاموش ہوں اُس وقت اَللہُ اَکْبَرْ اَللہُ اَکْبَرْ کہے۔ اِسی طرح دیگرکلِمات کاجواب دے۔جب مُؤَذِّن پہلی بار اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللہِ کہے یہ کہے :
صَلَّی اللہُعَلَیْكَ یَا رَسُوْلَ اللہِ ( ترجَمہ : آپ پر دُرُود ہو یا رسولُ اللہ ( صَلَّی اللہُ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم)