پڑھنے کوکسی بھی حدیث میں مَنع نہیں کیاگیا لہٰذامَنع نہ ہونا خودبخود ’’اِجازت‘‘ بن گیااور اچھی اچھی باتیں اسلا م میں ایجادکرنے کی توخودمدینے کے تاجوَر، نبیوں کے سرور ، حُضُورِانور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی نے ترغیب ارشادفرمائی ہے اور’’مسلم‘‘ کے باب ’’کتابُ العلم‘‘ میں سلطا نِ دوجہاں صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی کایہ فرمانِ اجازت نشان موجودہے:
مَنْ سَنَّ فِی الْاِ سْلامِ سُنَّۃً حَسَنَۃً فَعُمِلَ بِھَا بَعْدَہ کُتِبَ لَہ مِثْلُ اَجْرِ مَنْ عَمِلَ بِھَا وَلَایَنْقُصُ مِنْ اُجُوْرِھِمْ شَیْئٌ ۔(صَحیح مُسلِم ص۱۴۳۷حدیث۱۰۱۷)
جس شخص نے مسلمانوں میں کوئی نیک طریقہ جاری کیا اور اسکے بعد اس طریقے پر عمل کیا گیا تو اس طریقے پر عمل کرنے والوں کا اجر بھی اس ( یعنی جاری کرنے والے )کے نامۂ اعمال میں لکھا جائے گا اور عمل کرنے والوں کے اَجر میں کمی نہیں ہوگی۔
مطلب یہ کہ جو اسلام میں اچھّا طریقہ جاری کرے وہ بڑے ثواب کا حقدار ہے توبلاشُبہ جس خوش نصیب نے اذان واقامت سے قبل دُرُود وسلام کا رَواج ڈالا ہے وہ بھی ثوابِ جارِیّہ کا مستحق ہے،قِیامت تک جومسلمان اِس طریقے پرعمل کرتے رہیں گے اُن کوبھی ثواب ملے گا اورجاری کرنے والے کو بھی ملتارہے گااور دونوں کے ثواب میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔
ہوسکتا ہے کسی کے ذِہن میں یہ وسوسہ آئے کہ حدیثِ پاک میں ہے : کُلُّ بِدْعَۃٍ ضَلَالَۃٌ وَّ کُلُّ ضَلَالَۃٍ فِی النَّاریعنی ہر بدعت (نئی بات) گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنَّم میں (لے جانے والی) ہے ۔(صَحیح اِبن خُزَیمہ ج۳ص۱۴۳حدیث۱۷۸۵) اِس حدیث شریف کے کیا معنیٰ ہیں ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ حدیثِ پاک حق ہے ۔ یہاں بدعت سے مُراد بدعتِ سیِّئَۃ یعنی بُری