Brailvi Books

فیضانِ اذان
12 - 22
 اذان۔ (رَدُّالْمُحتار ج۲ص۸۲)میرے آقا اعلیٰ حضرت امام اَحمد رَضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرحمٰن فرماتے ہیں : جب بچّہ پیداہو فوراً سیدھے کان میں  اذان بائیں  (الٹے) میں  تکبیر کہے کہ خَلَلِ شیطان و اُمُّ الصِّبْیان سے بچے۔ (فتاوٰی رضویہ ج۲۴ص۴۵۲) ’’ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت‘‘ صَفْحَہ417تا 418پر ہے: ’’(صَرْع)بہت خبیث بَلَا ہے اور اسی کو اُمُّ الصِبْیان کہتے ہیں  اگر بچّوں  کو ہو، ورنہ صَرْع (مرگی ) ۔ ‘‘                                    
خ  مقتدیوں  کو خطبے کی اذان کا جواب ہرگزنہ دینا چاہئے یہی اَحوط (یعنی احتیاط سے قریب ) ہے ۔ ہاں  اگر یہ جوابِ اذان یا (دو خطبوں  کے درمیان) دعا،اگر دل سے کریں  ، زَبان سے تَلَفُّظ(یعنی الفاظ ادا کرنا) اصلاً (یعنی بالکل )نہ ہو تو کوئی حرج نہیں  ۔اور امام یعنی خطیب اگر زَبان سے بھی جوابِ اذان دے یا دُعا کرے بِلاشُبہ جائز ہے ۔    (فتاوٰی رضویہ مُخَرَّجہ ج۸ ص ۳۰۰،۳۰۱)
خ اَذان سُننے والے کیلئے اَذان کا جواب دینے کاحکم ہے۔(بہارِ شریعت ج۱ص۴۷۲) جنب (یعنی جسے جماع یا اِحتلام کی وجہ سے غسل کی حاجت ہو)بھی اذان کا جوا ب دے ۔ البتّہ حیض و نفاس والی عورت،خطبہ سننے والے ، نَمازِجنازہ پڑھنے والے ، جِماع میں مشغول یا جو قضائے حاجت میں  ہوں  اُن پر جوا ب نہیں  ۔  		(دُرِّمُختار ج۲ص۸۱)
خجب اذان ہو تواُتنی دیر کیلئے سلام وکلام اورجوابِ سلام اورتمام کام مَوقوف کردیجئے یہاں تک کہ تِلاوت بھی، اذان کو غور سے سنئے اورجوا ب دیجئے۔اِقامت میں  بھی اِسی طرح کیجئے۔      (بہارِ شریعت ج۱ص۴۷۳،دُرِّمُختار ج۲ص۸۶، عالمگیری ج۱ص۵۷مُلَخّصاً)