فرمان کی طرف اشارہ کرنا تھا کہ’’جسے منصب ِ قضا پر فائز کیا گیا گویا اسے بغیر چھری کے ذبح کر دیا گیا۔‘‘ (سنن ابي داود، کتاب الأقضیۃ، باب في طلب القضاء،الحدیث:۳۵۷۲، ج۳،ص۴۱۷) پس ملاح نے آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی بات سن کر آپ کو کشتی میں جھاڑیوں کے نیچے چھپا دیا۔
جب درباری سپاہی نے کافی دیر گزر جانے کے بعد تلاش کیا تو آپ کہیں نظر نہ آئے تو وہ بقیہ تینوں حضرات کو ہی لے کر خلیفہ منصور کے پاس چلا گیا۔ حضرت سیِّدُنا مسعررَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ دربار میں پہنچتے ہی خلیفہ سے پوچھنے لگے جناب آپ کے جانوروں کا کیا حال ہے؟ اور آپ کے خدام کیسے ہیں؟ آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِکی ایسی باتیں سن کر ان لوگوں نے آپ کو مجنوں اور دیوانہ سمجھتے ہوئے آپ کو بھی جانے دیا (کہ یہ جب آداب مجلس سے بھی آگاہ نہیں تو قاضی کیسے بنیں گے)۔ اب حضرت سیِّدُنا امامِ اعظم عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَکْرَمکی باری آئی تو آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایا: ’’میں کپڑے کا کاروبار کرتا ہوں اور کوفہ کے اشراف کبھی اس بات پر راضی نہ ہوں گے کہ ان کا قاضی ایک کپڑے بیچنے والا شخص ہو۔‘‘ اور ایک روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا: ’’اگر مجھے قاضی بنایا گیا تو کوفہ کے لوگ مجھے مزدور کہیں گے۔‘‘جب حضرت سیِّدُنا شریکرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی باری آئی تو آپ