عباسی خلیفہ منصور نے قَاضی القضاۃ (یعنی چیف جسٹس) کے منصب پر کسی عالمِ دین کو مقرر کرنے کا ارادہ کیا اور اس سلسلے میں اس کی نظر انتخاب چار جلیل القدر ہستیوں پر ٹھہری۔ چنانچہ، اس نے ان چاروں یعنی حضرت سیِّدُنا امام اعظم ابو حنیفہ، حضرت سیِّدُنا سفیان ثوری، حضرت سیِّدُنا شریک اور حضرت سیِّدُنا مِسۡعَررَحِمَہُمُ اللہُ تَعَالٰی کو دربار میں طلب کیا۔ امام اعظم ابو حنیفہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِنے اپنے ساتھیوں سے ارشاد فرمایا کہ میں کسی حیلہ سے اس منصب کو قبول کرنے سے جان چھڑا لوں گا۔ حضرت سیِّدُنا سفیان ثوری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی نے فرمایا کہ وہ بھاگ جائیں گے مگر یہ منصب قبول نہیں کریں گے۔ حضرت سیِّدُنا مسعررَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِنے فرمایا کہ وہ بچنے کے لئے خود کو پاگل اور دیوانہ ظاہر کریں گے اور حضرت سیِّدُنا شریکرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرمانے لگے کہ (اگر آپ لوگ ایساکریں گے تو) میں اسے قبول کرنے سے نہیں بچ پاؤں گا۔ چنانچہ جب منصور کا درباری سپاہی انہیں لینے آیاتو حضرت سیِّدُنا سفیان ثوری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِینے اس سے فرمایا: ’’میں قضائے حاجت کرنا چاہتا ہوں۔‘‘ پس آپ ایک دیوار کے پیچھے چھپ گئے۔ (قریب ہی دریا تھا) آپ نے دریا میں جھاڑیوں سے بھری ہوئی ایک کشتی دیکھی تو ملاح سے فرمایا: ’’اس دیوار کے پیچھے ایک شخص ہے جو مجھے قتل کرنا چاہتا ہے۔‘‘ اس سے آپ کی مراد سرورِ کائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اس