اور حضرتِ محمد مصطفیٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے سچے رسول ہیں، اے امیر المؤمنین! یہ زرہ آپ ہی کی ہے۔ (حلیۃ الاولیاء، الرقم ۲۵۷ شریح بن حارث الکندی، الحدیث:۵۰۸۶، ج۴، ص۱۵۳)
سُبحٰن اللہ عَزَّ وَجَلَّ! میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! دیکھا آپ نے کہ اسلام نے اپنے ماننے والوں کی کیسی اعلیٰ تربیت کی کہ خلیفۂ وقت ایک عام آدمی کی طرح قاضی کی عدالت میں پیش ہوتا ہے اور قاضی خلیفہ کے خلاف اور یہودی کے حق میں فیصلہ کرنے میں ذرہ بھر تامل سے کام نہیں لیتا کیونکہ منصبِ قضا کا یہی تقاضا تھا کہ کوئی بھی ہو فیصلہ حق وانصاف پر مبنی ہونا چاہئے۔ جیسا کہ سورۂ نساء میںاللہ عَزَّوَجَلَّ کا فرمانِ عالیشان ہے:
وَ اِذَا حَکَمْتُمۡ بَیۡنَ النَّاسِ اَنۡ تَحْکُمُوۡا بِالْعَدْلِ ؕ (پ۵، النساء:۵۸)
ترجمۂ کنز الایمان: اور یہ کہ جب تم لوگوںمیں فیصلہ کرو تو انصاف کے ساتھ فیصلہ کرو۔
سلف صالحین اور منصب قضا
منصب ِ قضا کا حق ادا کرتے ہوئے فیصلہ کرنا بڑا ہی جان جوکھوں کا کام ہے اور بہت سے سلف صالحینرَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام نے اس حساس منصب سے بچنے میں ہی عافیت جانی۔ چنانچہ،