آپرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ قاضی شریح کے پہلو میں اور یہودی ان کے سامنے بیٹھ گیا۔ پھر آپرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے ارشاد فرمایا کہ اگر میرا مخالف یہودی نہ ہوتا تو میں اس کے ساتھ مجلس عدالت میں برابر کھڑا ہوتا، مگر میں نے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو یہ ارشاد فرماتے سنا ہے کہ یہودیوں کو حقیر سمجھو جیسا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے انہیں حقیر قرار دیا ہے۔
قاضی شریحرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِکے نے عرض کی: ’’اے امیر المومنین! فرمائیے! کیا اس یہودی سے آپ کا کوئی معاملہ ہے؟‘‘ تو آپ نے فرمایا: ’’ہاں! یہ زرہ جو یہودی کے قبضے میں ہے، میری ہے، میں نے اسے بیچا نہ ہبہ کیا۔‘‘ قاضی صاحب نے یہودی سے پوچھا کہ تو کیا کہتا ہے؟ وہ بولا کہ زرہ میری ہے اور میرے قبضے میں ہے۔ قاضی صاحب نے امیر المومنین سے پوچھا کہ کیا آپ کے پاس گواہ ہیں؟ تو آپ نے فرمایا: ’’ہاں! میرا غلام قنبر اور میرا بیٹا حسن گواہی دیں گے کہ یہ زِرہ میری ہے۔‘‘ توقاضی شریحرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِکے نے یہ کہتے ہوئے کہ ’’باپ کے حق میں بیٹے کی گواہی شرعاً معتبر نہیں‘‘ یہودی کے حق میں فیصلہ دے دیا۔ یہ دیکھ کر یہودی کہنے لگا کہ امیر المومنین مجھے اپنے ہی قاضی کے پاس لائے اور ان کے قاضی نے ان کے خلاف ہی فیصلہ دے دیا۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ بیشک یہ دین سچا ہے اور یہ گواہی بھی دیتا ہوں کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں