سرکار کو دو مَردوں کے برابر بخار آتا تھا
حضرتِ سیِّدُنا عبد اللہ ابنِ مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیں کہ میں بارگاہِ رسالت میں حاضِر ہوا اور جب میں نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو چھواتو عرض کی: یَارَسُولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ! آپ کو تو بہت تیز بخار ہے! فرمایا:ہاں ! مجھے تمہارے دومردوں کے برابر بخار ہوتا ہے ۔ میں نے عرض کی: کیایہ اِس لئے کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے لئے دُگناثواب ہوتاہے؟ ارشاد فرمایا:ہاں !( مُسلم ص ۱۳۹۰حدیث ۲۵۷۱ )
ہم نے کبھی کسی کا برا نہیں چاہا!
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! بعض لوگ بیماریوں اور پریشانیوں پر بے صبر ی کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ ہم نے تو کبھی کسی کا بُرا نہیں چاہا ، کسی کا کچھ نہیں بگاڑا پھربھی نہ جانے ہم پر یہ پریشانیاں کیوں !ایسوں کیلئے بیان کردہ حدیثِ پاک میں کافی ووافی درس موجود ہے ، یقینا ہمارے معصوم آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے کبھی بھی کسی کاکچھ نہیں بگاڑا تھا، پھر بھی آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو دیگر مردوں کے مقابلے میں دُگنا بخار آتا تھاتو معلوم ہو اکہ ’’دوسروں کا کچھ بگاڑنا‘‘ ہی بیماریوں اورمصیبتوں کا باعث نہیں ہوتا، نیز بیماریاں او رپریشانیاں مسلمان کو ثواب کا خزانہ دلاتیں ، گناہوں کو معاف کرواتیں اورصَبْر کرنے والے مسلمان کو جنّت کا حقدار بناتی ہیں ۔
مریض اور کلمۂ کفر
بعض اوقات نادان لوگ بیماری اور مصیبت سے تنگ آ کراللہ تَعَالٰی پر اعتراض کرتے