دوا بھی سنّت ہے اور دعا بھی
مُفَسِّرِشہیر حکیمُ الْاُمَّت حضر تِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنّان مِرآت جلد2 صَفْحَہ427 پرفرماتے ہیں:اُس مبارَک عورت کا نام سُعَیرہ یاسُقَیرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا ہے بی بی خدیجہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا کی کنگھی چوٹی کی خدمت انجام دیتی تھیں ( لمعات و مرقات) (مرگی میں گر جاتی ہوں اورمیرا پردہ کھل جاتا ہے ) کے ضِمْن میں مفتی صاحِب فرماتے ہیں :یعنی گِر کر مجھے تن بدن کا ہوش نہیں رہتا، دوپٹا وغیرہ اتر جاتا ہے ، خوف کرتی ہوں کہ کبھی بے ہوشی میں سِتْر نہ کھل جائے۔ آگے چل کر سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی طرف سے اس صحابیہ کو’’شِفا یا صبر ‘‘ کا اختیار دینے کے تعلُّق سے مفتی صاحِب فرماتے ہیں :اس میں اشارۃً معلوم ہوا کہ کبھی بیماری کی دوا اور مصائب میں دعا نہ کرنا ثواب اور صبر میں شامل ہے اس کا نام خودکشی نہیں ، خُصوصاً جب پتا لگ جائے کہ یہ مصیبت رب کی طرف سے امتحان ہے اِسی لیے (حضرتِ سیِّدنا) ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام نے نمرود کی آگ میں جاتے وقت اور حضرتِ ( سیِّدنا امام)حسین (رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ)نے میدان کربلا میں دَفْعِیہ(دَف۔عِی۔یَہ۔یعنی آزمائش دور ہونے) کی دعا نہ کی، ورنہ عام حالات میں دوا بھی سنّت ہے اور دعا بھی ۔ ( مراٰۃ المناجیح )
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد