چاہیے کہ ہم اپنے ان مُحسنین کی مَحَبَّت و عظمت کودل میں بسائیں ، ان کے نَقْشِ قَدَم پرچلتے ہوئے زِنْدگی بسرکریں اوران کی اَدْنیٰ سی بے اَدَبی وگُستاخی اورطَعْن وتَشْنِیْع سے بھی باز رہیں اورہمیشہ ان کاذِکْرِخَیْرکرتے رہیں ۔ عُلَمافرماتے ہیں : ان( صحابَۂ کرامعَلَیْہِمُ الرِّضْوَان) کا جب ( بھی) ذِکْرکِیاجائے توخیرہی کے ساتھ ہونافرض ہے ۔ (1) یادرکھئے !حضورنَبیِّ کریمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی رِضاوخُوشنودی حاصل کرنے کے لئے صرف آپ کی مَحَبَّت کا دعویٰ ہی کافی نہیں بلکہ تمام صحابَۂ کرامعَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کااَدب واِحْترام بھی ضروری ہے ورنہ ان حضرات کی بُرائی کرناحضورنَبیِّ پاکصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی ناراضی کاسبب بن سکتا ہے ۔ چنانچہ
بُغْضِ صحابہ ناراضِیِ مصطفٰے کاسبب ہے :
علاَّمہ یُوسف بن اِسماعیل نَبْہانیرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہبیان کرتے ہیں کہ حضرت سیِّدُنا ابُوعلی قحطانرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہفرماتے ہیں : میں نے خَواب دیکھاکہ میں کَرْخْ کی جامع مسجد شَرقِیّہ میں داخل ہوا ، میں نے سَیِّدُالْمُرْسَلِیْنصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکودیکھا ، آپ کے ہمراہ دو آدمی اوربھی تھے ، جنہیں میں نہیں جانتاتھا ، میں نے خِدْمَت اَقدس میں سلام عرض کیا ، مگرآپ نے کوئی جواب نہ دیا ، میں نے عرض کی : یارسولَاللہصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! میں آپ پرشب وروزاتنی اتنی مرتبہ دُرُودبھیجتاہوں ، آپ نے مجھے جوابِ سلام سے مَحروم فرمادیا؟ارشادفرمایا : ’’ تم مجھ پرتودُرُودبھیجتے ہولیکن میرے صحابہ پرطَعْن وتَشْنیع کرتے ہو ۔ ‘‘ میں نے عرض کی : ’’ یارَسُوْلَاللہصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم!میں آپ کے دَسْتِ اَقْدس پر توبہ کرتاہوں آئندہ ایسانہیں کروں گا ۔ ‘‘ پھرآپصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ( سلام کے
________________________________
1 - بہارِ شریعت ، حصہ۱ ، ۱ / ۲۵۲