یہ ہے کہ اگر میں چاہوں تو اس میں سے کچھ بھی نہ رہے ، یہ فرماکربیڑیوں میں سے پاؤں اورہتھکڑیوں میں سے ہاتھ نکال دئیے ۔ (1)
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
پیغامِ کربلا :
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!بِلا شُبہ اَسِیْران و شہیدانِ کربلا کا یہ صَبْر قابلِ تحسین اورلائِقِ تقلید ہے ، لہٰذا ہمیں بھی چاہئے کہ اگر ہم پر بھی کوئی ناگہانی مُصیبت آجائے ، مثلاً قریبی عزیزوفات پاجائیں یابچّہ بیمارپڑجائے ، ڈاکہ پڑجائے یاکوئی حادِثہ پیش آجائے ، رقم یاگاڑی وغیرہ گم یاچوری ہوجائے ، سردی ، گرمی یا لوڈشیڈنگ ومہنگائی شِدَّت اختیار کر جائے یا نوکری سے نکال دیا جائے ، الغَرَض بلاؤں کا ہُجوم ہی کیوں نہ ہوجائے ، اُس وَقْت مَظلومیْنِ کربلاکے مَصائب وآلام کو یادکرکے صَبْر و اِسْتِقْلال کا مُظاہرہ کرتے ہوئے صَبْر صَبْراورصرف صَبْر سے کام لیجئے کہ مُصیبتوں پر صبر کرنے والوں کواللہعَزَّ وَجَلَّاپنے فضل و کرم سے بروزِ قیامت بے شُمار اِنْعام و اِکرام سے سَرفراز فرمائے گا ۔ چنانچہ
مصائب وآلام پرصبرکی فضیلت :
حُسنِ اَخلاق کے پیکرصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ارشادفرمایاکہاللہعَزَّ وَجَلَّارشاد فرماتاہے : جب میں اپنے کسی بندے کے بدن یااس کی اَوْلادیااس کے مال کی طرف کوئی مُصیبت بھیجوں ، پھر وہ صَبْرِجمیل کے ساتھ اس کا اِسْتِقْبال کرے ، تو قیامت کے دن مجھے اس سے حیاآئے گی کہ میں اس کے لئے میزان رکھوں یا اس کا نامَۂ اعمال کھولوں ۔ (2)
________________________________
1 - المنتظم ، سنة اربع وتسعین ، ۵۳۰-علی بن الحسین...الخ ، ۶ / ۳۳۰ ، ملخصا
2 - نوادرالاصول ، الاصل الخامس والثمانون والمائة ، ۲ / ۷۰۰ ، حدیث : ۹۶۳