اوربچّے یتیم ہوگئے ، امام حسینرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہکے ساتھی ، ہاشمی جوان ، مُسلم بن عقیل واَولادِ عقیل ، فَرزَنْدانِ علی وشہزادَگانِحَسَنَیْن کَرِیْمَیْنرِضْوَانُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْنیزیدی لشکر کے زہریلے تِیروتلواراورنیزوں سے چَھلنی ہوکروَقْفے وَقْفے سے نواسَۂ رسول کے قدموں پر نِثار ہوتے رہے ، یزیدیوں کی بے مُرَوَّتی و بے غیرتی کا عالَم یہ تھا کہ دُودھ پیتا نَنّھا علی اَصْغر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہشِدّتِ پیاس سے تڑپتارہا ، بالآخرتِیرکاشِکارہوکرشہادت سے سَرفرازہوا ، اَلْغَرَض گُمْراہِیَّت کے عَلَمْبرداروں نے چمَنِ زَہراکے ہرے بھرے بوستان کودِن دھاڑے تَہَس نَہَس( تباہ و برباد) کرکے رکھ دِیا ، مگرقربان جائیے میدانِ کارزار( میدانِ جنگ) کے بہادرشہسواروں ، اہْلِ بَیْتِ اَطْہارعَلَیْہِمُ الرِّضْوَانکے روشن تاروں اورگُلشنِ فاطمہ کے جگرپاروں کی ہمّت اورصبر واِسْتِقْلال پرکہ اِس قَدَردل سوز مَصائب وآلام میں مُسلسل تین دن بھوک و پیاس برداشت کرکے بھی صبر و اِسْتِقامت کے ساتھ باطل کے خِلاف ڈَٹے رہے اور صَبْر کادامن مَضْبُوطی سے تھامے رکھا ، کیونکہ یہ ایک آزمائش تھی اور اللہوالوں کی ہمیشہ سے یہ شان رہی ہے کہ آزمائشوں میں صبر و برداشت سے کام لیتے ہیں ۔ چنانچہ
شہزادۂ حسین کاصبرواستقلال :
عبْدُالملک بن مَروان کے زمانے میں جب حضرت سیِّدُناعلی بن حُسین اِمام زَیْنُ الْعابِدینرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکوقیدکیاگیا ، بیڑیاں اورہتھکڑیاں ڈال دی گئیں ، پہرے دار کھڑے کردیئے گئے ، توامام زُہریرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہآپ کواس حالت میں دیکھ کرروپڑے اورکہا : کاش!آپ کی جگہ مجھے قیدکردیاجاتا ۔ اس پرحضرت سیِّدُناامام زَیْنُ الْعابِدینرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے فرمایا : کیاتمہارایہ خیال ہے کہ اس قَیدوبند ش سے مجھے کرب و بے چینی ہے ۔ حقیقت