بعد جُونہی بادشاہ نے جوتے میں اپنا پاؤں ڈالا اُس میں موجود زہریلے بِچھو نے ڈنک مار دیا ۔ بادشاہ کی چیخیں بلند ہوئیں تو خدمت گار بھاگم بھاگ اس کے پاس پہنچے ۔ زہر کے اثر سے بادشاہ کا سُرخ وسفید چہرہ نیلا پڑ چکا تھا ،محل میں شور مچ گیا کہ ’’بادشاہ سلامت کو بچھو نے کاٹ لیا ہے ۔‘‘چند لمحوں میں وزیرِ خاص بھی پہنچ گئے ،ہاتھوں ہاتھ شاہی طبیب کو طَلَب کر لیا گیا جس نے بڑی مَہارت سے بادشاہ کا علاج شروع کردیا ۔ جیسے تیسے کر کے بادشاہ کی جان تو بچ گئی لیکن اسے کئی روز بسترِ عَلالت پر گزارنا پڑے ۔ جب طبیعت ذرا سنبھلی اوربادشاہ دربارمیں بیٹھا تو ایک آنکھ والے آدمی کو دوبارہ پیش کیا گیا تاکہ اسے سزا سُنا ئی جائے کیونکہ شکایت کرنے والوں کاکہنا تھا کہ اب اس کے ’’منحوس‘‘ ہونے کا تجربہ خود بادشاہ سلامت کرچکے ہیں۔ وہ شخص رو رو کر رحم کی فریاد کرنے لگاکہ مجھے میرے وطن سے نہ نکالا جائے ۔یہ دیکھ کر ایک وزیر کو اس پر رحم آگیا ، اس نے بادشاہ سے بولنے کی اِجازت لی اور کہنے لگا: بادشاہ سلامت ! آپ نے صبح صبح اس کی صورت دیکھی تو آپ کو بِچھو نے کاٹ لیااس لئے یہ منحوس ٹھہرا لیکن معاف کیجئے گا کہ اِس نے بھی صبح سویرے آپ کا چہرہ دیکھا تھا جس کے بعد سے یہ اب تک قید میں تھا اور اب شاید اسے مُلک بَدری(یعنی مُلک چھوڑنے) کی سزا سُنا دی جائے تو ذراٹھنڈے دل سے غور کیجئے کہ منحوس کون؟ یہ شخص یا آپ ؟ یہ سُن کر بادشاہ لاجواب ہوگیا اور ایک آنکھ والے کالے آدمی کو نہ صِرْف آزاد کردیا بلکہ اِعلان کروا دیا کہ آیندہ کسی نے اس کو منحوس کہا تو اُسے سخت سزا دی جائے گی ۔