کیا کوئی شخص منحوس ہوسکتا ہے؟
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! کسی شخص ،جگہ ، چیز یا وَقْت کو منحوس جاننے کا اسلام میں کوئی تصوُّر نہیں یہ محض وہمی خیالات ہوتے ہیں۔ میرے آقااعلیٰ حضرت، امامِ اہلِ سنّت، مجدِّدِ دین وملّت ،مولانا شاہ امام احمد رضاخان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن سے اسی نوعیت کا سُوال کیا گیا کہ ایک شخص کے متعلق مشہور ہے اگر صبح کو اس کی منحوس صورت دیکھ لی جائے یا کہیں کام کو جاتے ہوئے یہ سامنے آجائے تو ضَرورکچھ نہ کچھ دِقّت اور پریشانی اٹھانی پڑے گی اور چاہے کیسا ہی یقینی طور پر کام ہوجانے کا وُثُوق (اِعتماد اور بھروسہ)ہو لیکن ان کا خیال ہے کہ کچھ نہ کچھ ضَروررُکاوٹ اور پریشانی ہوگی چنانچہ اُن لوگوں کو ان کے خیال کے مناسب ہربار تجربہ ہوتا رہتا ہے اور وہ لوگ برابر اِس اَمْر(یعنی بات) کا خیال رکھتے ہیں کہ اگر کہیں جاتے ہوئے اس سے سامنا ہوجائے تو اپنے مکان پر واپس آجاتے ہیں اورتھوڑی دیر بعد یہ معلوم کرکے کہ وہ منحوس سامنے تو نہیں ہے !اپنے کام کے لئے جاتے ہیں۔اب سُوال یہ ہے کہ ان لوگوں کا یہ عقیدہ اور طرزِ عمل کیسا ہے؟ کوئی قباحتِ شرعیہ تو نہیں ؟اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہ تعالٰی علیہ نے جواب دیا:شرعِ مطہر میں اس کی کچھ اصل نہیں ، لوگوں کا وہم سامنے آتا ہے۔ شریعت میں حکم ہے: اِذَا تَطَیَّرْتُمْ فَامْضُوْایعنی جب کوئی شگونِ بَدگمان میں آئے تو اس پر عمل نہ کرو۔ ۱؎ وہ طریقہ محض ہندوانہ ہے مسلمانوں کو ایسی جگہ چاہیے کہ ’’اَللّٰہُمَّ
مـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــدینہ
۱ :فتح الباری،کتاب الطب، باب الطیرۃ،۱۱/۱۸۱،تحت الحدیث:۵۷۵۴