Brailvi Books

اشکوں کی برسات
26 - 36
عنہ کو یہودی کہتا تھا۔ ایک بار سیِّدُنا امامِ اعظم عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَکْرَم اُس کے پاس تشریف لے گئے اوراس پر انفِرادی کوشِش  کے ذریعے حکمت بھرے مَدَنی پھول لٹاتے ہوئے فرمایا: میں آپ کی بیٹی کیلئے رِشتہ لایا ہوں ،لڑکا ایسا ہے کہ بس اُس پر ہر وَقت خوفِ خدا عزوجل کا غَلَبہ رہتا ہے۔ نہایت مُتَّقیاور پرہیزگار ہے اورساری ساری رات عبادت میں گزار دیتا ہے۔ لڑکے کے یہ اَوصاف (یعنی خوبیاں ) سن کر وہ شخص بولا: بَہُت خوب! ایسا داماد تو ہمارے سارے خاندان کیلئے باعثِ سعادت ہو گا! امامِ اعظم  عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَکْرَم نے فرمایا: مگر اُس میں ایک عیب ہے اور وہ یہ کہ وہ مذہباً یہودی ہے۔ یہ سنتے ہی وہ شخص سیخ پا ہوگیا اورگَرج کر بولا: کیا میں اپنی بیٹی کی شادی یہودی سے کروں ؟ سیِّدُنا امامِ اعظم عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَکْرَم نے نہایت ہی نرمی سے ارشاد فرمایا: ’’بھائی! آپ خود تو اپنی بیٹی یہودی کے نِکاح میں دینے کیلئے تیّار نہیں تو یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اللہ عزَّوَجَلَّکے مَحبوب ، دانائے غُیُوب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ یکے بعد دیگرے اپنی دو شہزادیاں کسی یہودی کے نکاح میں دے دیں !‘‘ یہ سُن کر اُس کی عَقل ٹھکانے لگ گئی اور وہ بے حد نادِم ہوا اور سیِّدُنا عثمانِ غنی ذُوالنُّورَین جامع القراٰن رضی اللہ تعالٰی عنہ کی مُخالَفَت سے  توبہ کی ۔
(اَ لْمَناقِب لِلْکَرْدَرِی ج۱ ص۱۶۱ کوئٹہ)
نور کی سرکار سے پایا دو شالہ نور کا
ہو مبارَک تم کو ذُوالنُّورین جوڑا نور کا(حدائقِ بخشش شریف)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! 	صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد