سے مُتَعَلِّق فکرِ مدینہ کرے گا، اللہعَزَّوَجَلَّ اُس کی مغفِرت فرمادیگا۔
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
دشمن کے لئے دعا
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!ہمارے امامِ اعظم عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَکْرَم کے ساتھ کوئی کتنی ہی بُرائی کرتا، آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ اس کی خیر خواہی ہی فرماتے۔ چُنانچِہ ایک بار کسی حاسِد نے امامِ اعظم عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَکْرَم کو سخت بُرا بھلا کہا، گندی گالیاں بھی دیں اور گمراہ بلکہ مَعاذاللہ عزوجل زِندیق(یعنی بے دین) تک کہہ دیا۔ امامِ اعظم عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَکْرَم نے جواب میں ارشاد فرمایا : ’’ اللہعَزَّوَجَلَّ آپ کو مُعاف فرمائے، اللہعَزَّوَجَلَّ جانتا ہے کہ آپ جو کچھ میرے بارے میں کہہ رہے ہیں میں ایسا نہیں ہوں ۔‘‘ اِتنا فرمانے کے بعد آپ کا دل بھر آیا اور آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اور فرمانے لگے: ’’میں اللہعَزَّوَجَلَّ سے اُمّید کرتا ہوں کہ وہ مجھے مُعافی عطا فرمائے گا، آہ! مجھے عذاب کا خوف رُلاتا ہے۔‘‘ عذاب کا تصوُّر آتے ہی گریہ (یعنی رونا) بڑھ گیا اور روتے روتے بے ہوش ہو کر زمین پر تشریف لے آئے۔ جب ہوش آیا تو دعا مانگی: ’’یااللہ عزوجل! جس نے میری بُرائی بیان کی اس کومُعاف فرما دے۔‘‘ وہ شخص آپ کے یہ اَخلاقِ کریمہ دیکھ کر بَہُت مُتَأَثِّر ہوا اور مُعافی مانگنے لگا، فرمایا: جس نے لاعلمی کے سبب میرے بارے میں کچھ کہا اُس کو مُعاف ہے، ہاں جو اہلِ علم ہونے کے باوُجُود جان بوجھ کر میری طرف غَلَط عَیب منسوب کرتا ہے وہ قُصُور وار ہے۔ کیوں کہ عُلَماء کی غیبت