اُڑاتے پھرتے ہیں ، ایسے طلبہ کو علمِ دین کی اصل روح کیوں کر حاصل ہو سکتی ہے! مولائے روم علیہ رحمۃ القیوم فرماتے ہیں :
از خدا جوئیم توفیقِ ادب بے ادب محروم ماند از فضلِ رب
بے ادب تنہا نہ خود را داشت بد بلکہ آتَش دَر ہمہ آفاق زد
( ہم اللہ تعالیٰ سے حُصولِ ادب کی توفیق مانگتے ہیں کیونکہ بے ادب رب تعالیٰ کے فضل سے محروم رہتا ہے۔بے ادب نہ صرف اپنے آپ کو بُرے حالات میں رکھتا ہے بلکہ اس کی بے ادبی کی آگ تمام دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے)
(فتاویٰ رضویہ ج ۲۳ ص ۷۰۹)
’’ اُستاذ تو رُوحانی باپ ہوتا ہے‘‘ کے بائیس حُرُوف کی نسبت سی اساتِذہ کی غیبتوں کی 22مثالیں
دعوتِ اسلامی کے اِشاعتی ادارے مکتبۃُ المدینہ کی مطبوعہ 505 صَفحات پر مشتمل کتاب ، ’’ غیبت کی تباہ کاریاں ‘‘صَفْحَہ419اورصَفْحَۂ بَعدِیَہ پر ہے:علمِ دین پڑھانے والا استاذ انتہائی قابلِ احترام ہوتا ہے مگر بعض نادان طَلَبہ اپنے اساتِذہ کے نام بگاڑتے ، مذاق اُڑاتے ہوئے نقلیں اُتارتے ، تہمتیں لگاتے ، بدگمانیاں اور غیبتیں کرتے ہیں ، ان کی اصلاح کی خاطِر اساتذہ کی غیبتوں کی 22مثالیں حاضِر کی ہیں :خ آج استاذ صاحِب کا موڈ آف ہے لگتا ہے گھر سے لڑ کر آئے ہیں خیہ فُلاں مدرَسے میں پڑھاتے تھے خوہاں تنخواہ کم تھی ، زیادہ تنخواہ کیلئے ہمارے مدرسے میں تشریف لائے ہیں خ توبہ! توبہ ! ہمارے استاذ( یا قاری صاحِب) بالغات(یعنی بڑی لڑکیوں ) کو ٹیوشن پڑھانے ان کے گھر