اُستاد کی چوکھٹ پر سر رکھ کر سو جاتے
سبحٰنَ اللہ! ہمارے امامِ اعظم عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَکْرَم اپنے استاد کا کس قَدَر احتِرام فرماتے تھے، جبھی تو آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ علمِ دین کی دولت سے نِہال و مالا مال تھے ۔ حضرتِ سیِّدنا عبداللہبن عبّاس رضی اللہ تعالٰی عنہما کا بھی اپنے استاذِ محترم کے سا تھ احتِرام مثالی تھا چُنانچِہ دعوتِ اسلامی کے اِشاعتی ادارے مکتبۃُ المدینہ کی مطبوعہ 561 صَفحات پر مشتمل کتاب ، ’’ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت(مُخَرَّجہ)‘‘ صَفْحَہ 143تا 144پر میرے آقا اعلیٰ حضرت،اِمامِ اَہلسنّت،مولیٰناشاہ امام اَحمد رضا خان علیہ رَحمۃُ الرَّحمٰنکا ارشاد ہے: حضرتِ سیِّدنا عبداللہ بن عبّاس رضی اللہ تعالٰی عنہما فرماتے ہیں : جب میں بَغَرضِتحصیلِ علم (یعنی علمِ دین سیکھنے کے لئے)حضرت ِزَید بن ثابِت رضی اللہ تعالٰی عنہما کے درِ دولت پرجاتاا وروہ باہَر تشریف نہ رکھتے ہوتے تو براہِ ادب ان(یعنی اپنے استاذِ محترم) کو آواز نہ دیتا ، ان کی چوکھٹ پر سر رکھ کر لیٹ رہتا ۔ ہَوَا خاک اور رَیتا اُڑا کر مجھ پر ڈالتی ، پھر جب (اپنے طورپر استاذِ گرامی) حضرت زید (رضی اللہ تعالٰی عنہ)کا شانۂ اقدس سے تشریف لاتے (تو) فرماتے : ’’ ابنِ عَمِّ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ! (یعنی اے رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے چچا کے بیٹے ) آپ نے مجھے اِطِّلاع کیوں نہ کرادی؟‘‘ میں عرض کرتا : مجھے لائق نہ تھا کہ میں آپ کو اطِّلاع کراتا ۔ ‘‘(مِراۃُ الجِنان للیافعی ج۱ ص۹۹بِتَصَرُّف دارالکتب العلمیۃ بیروت)
اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ تعالٰی علیہ نے یہ فرمانے کے بعد مزید فرمایا :یہ ادب ہے جس