کا مشن لوگوں کو تنگ کرنا، ستانا ، بلاوجہ مار دھاڑ کرنا تھااور یوں نہ جانے میں کتنے لوگوں کی دل آزاری کرکے ان کی آہیں لے چکا تھا۔ میری تاریک زندگی میں صبح ہدایت کا آفتاب اس طرح چمکا کہ خوش نصیبی سے ایک مرتبہ مجھے دعوتِ اسلامی کے تحت ہونے والے ہفتہ وار سنّتوں بھرے اجتماع میں شرکت کا موقع ملا۔ جس میں مبلغِ دعوتِ اسلامی کا سنتوں بھرا بیان سنا، بیان کے الفاظ تاثیر کا تیر بن کر دل میں اترتے چلے گئے وقتی طور پر مجھ پر کافی اثر ہوا اجتماع کے اختتام پر گھر واپسی ہوئی رات خیر سے گزری لیکن صبح پھر شیطانی بھوت سوار ہو گیا اور دوبارہ وہی معمول کی سرگرمیاں شروع ہوگئیں۔ کچھ عرصہ بعد میری ملاقات ایک مبلغِ دعوتِ اسلامی سے ہوئی ،انہوں نے انفرادی کوشش کرتے ہوئے مجھے نیکی کی دعوت پیش کی اور محبت بھرے انداز میں بانیٔ دعوتِ اسلامی، شیخِ طریقت، امیرِاہلسنّت حضرت علامہ مولاناابوبلال محمد الیاس عطّارؔ قادری رضوی دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ العَالِیَہ کا تعارف کرواتے ہوئے کہا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے انہیں اپنی ولایت سے نواز ہے، آپ کی زبان سے نکلے ہوئے پراثر کلمات نے بہتیروں کی کایا پلٹ دی، کئی شرابی تائب ہوگئے نہ جانے کتنوں کی زندگیاں سنّتوں کی خوشبو سے معطر و معنبر ہو گئیں۔ ساتھ ہی مجھے آپ دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ العَالِیَہ کے بیانات سننے کی ترغیب دلائی میں ان کی گفتگو سے بہت متأثر ہوا اور امیرِاہلسنّت