تھے۔ یوں نجانے کتنے ہی ہنستے بستے گھروں کی خوشیوں کا گلا گھونٹنے کا وبال میرے سر تھا، وہ تو اللہ عَزَّوَجَلَّ کا کرم ہوا کہ اس نے مجھے دامنِ امیرِ اہلسنّت اور دعوتِ اسلامی جیسا ماحول عطافرما کر اسے میری اصلاح کا ذریعہ بنادیا ہوا کچھ یوں کہ دعوتِ اسلامی سے وابستہ ایک اسلامی بھائی کی شفقتوں اور محبتوں سے بھرپور اِنفرادی کوشش نے مجھے ان سے متأثر کردیالہٰذا انہی کی ترغیب پر مجھے شیخِ طریقت، امیرِ اہلسنّت، بانیٔ دعوتِ اسلامی حضرت علامہ مولانا ابوبلال محمد اِلیاس عطّارؔ قادری دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ العَالِیَہ کا بیان بنام ’’ قبر کی پہلی رات‘‘ سننے کی سعادت ملی جسے سن کر مجھ پر رقت طاری ہو گئی میرے جسم کا رواں رواں کانپ اٹھا گناہوں پر ندامت کی وجہ سے میری آنکھوں سے بے اختیار آنسو جاری ہوگئے اور میری ہچکیاں بندھ گئیں۔ موت کے مراحل میری نظروں میں گھومنے لگے اورمجھ پر یہ بات آشکار ہوگئی کہ عنقریب اس دنیائے ناپائیدار کی تمام تر آسائشیں چھوڑ کر مجھے بھی مرنا ہے اور گھپ اندھیری قبر میں اترنا ہے، دولت وشہرت نہ تو قبر وآخرت میں میرے کچھ کام آئے گی اورنہ ہی عذاب نار کا حقدار بننے سے مجھے بچا پائے گی۔ یقینا زندگی بھر کے کرتوتوں کا حساب میری گردن پر ہوگا خدا نہ کرے اسی حالت میں مرگیا تومیرا کیا بنے گا؟ اس بیان کی وجہ سے میرے دل میں مَدَنی انقلاب برپا ہوگیا بالآخر اس کی برکت سے اپنے تمام گناہوں سے