میں وقتی طور پر لذت تو مل جاتی ہے مگر اس کا خمیازہ قلبی سکون کی تباہی و بربادی کی صورت میں بھگتنا پڑتا ہے، میں بھی اس حقیقت سے بے خبر شب و روز لغویات میں مست تھا، بدمعاشی میرا شیوہ تھا اور بلاوجہ ماردھاڑ اور آئے دن کالج میں نِت نئے دنگے فسادمیں میرا بڑا شہرہ تھا۔ میرے دوست احباب لڑائی جھگڑوں میں مجھے اپنا گُرو (اُستاد)مانتے تھے اور ایسے کاموں میں اکثر مجھ ہی سے مدد لیتے تھے غرض کالج میں پڑھنے والے سبھی طلباء کے دلوں میں میری اچھی خاصی دھاک بیٹھ چکی تھی یہی وجہ تھی کہ کوئی بھی میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کی ہمت وجرأت نہیں رکھتا تھا اسی بری خصلت کی وجہ سے میں ایک بار میں گرفتار ہوگیا اور فردِجرم عائد ہونے کے بعد ڈسٹرکٹ جیل سرگودھا میں بھیج دیا گیا اور وہاں ایک وقت تک کال کوٹھری کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں۔ وہ تو اللہ عَزَّوَجَلَّ کا کرم ہوا کہ مجھے دعوتِ اسلامی کا پیارا پیارا مدنی ماحول میسر آگیا ورنہ نجانے آخرت میں میرا کیا بنتا۔ ہوا یوں کہ 1990ء میں تبلیغِ قراٰن وسنّت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک دعوتِ اسلامی سے وابستہ ایک اسلامی بھائی نے مجھ پر اِنفرادی کوشش کرتے ہوئے نیکی کی دعوت پیش کی اور ساتھ ہی ساتھ شیخِ طریقت، امیرِاہلسنّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ العَالِیَہ کے دو عدد رقت اَنگیز بیانات بَنام ’’زَمیں کھا گئی نَوجواں کیسے کیسے‘‘ اور ’’ڈَھل جائے گی یہ جوانی‘‘ کی