روز یونیورسٹی میں میری ملاقات دعوتِ اسلامی کے مدنی ماحول سے وابستہ ایک اِسلامی بھائی سے ہوئی جن کا تعلق مرکزُ الاولیاء لاہور سے تھاوہ اپنے اچھے اخلاق اور اعلیٰ کردار کی وجہ سے پہلی ہی ملاقات میں میرے دل میں گھر کر گئے، اس کے بعد بھی ان سے وقتاً فوقتاً ملاقات ہوتی رہی جس کی وجہ سے پہلے پہل تو ایک دوسرے سے اچھی جان پہچان ہوگئی اور پھر پتا ہی نہیں چلا کہ کب یہ باہمی شناسائی گہری دوستی کی صورت اختیار کرگئی ،انہی کی وجہ سے میں تبلیغِ قراٰن و سنت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک دعوتِ اسلامی کی پیاری پیاری تنظیم اور اس تنظیم کے عظیم بانی شیخِ طریقت امیرِ اہلسنّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی ذات سے متعارف ہوا، میں ان کے جذبۂ خیر خواہی پر دل ہی دل میں انہیں داد دیا کرتا کیونکہ وہ جب بھی ملتے مجھ پر اِنفرادی کوشش کرتے ہوئے گناہوں سے بچنے اور نیکیاں کرنے کا ذہن دیتے نیز اَمیرِ اَہلسنّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی ذاتِ سے وقتاً فوقتاً صادر ہونے والے حیرت انگیز واقعات کاتذکرہ کرتے ہوئے اپنے ایمان کی حفاظت کے لئے زمانے کے ولی شیخِ طریقت، امیرِاہلسنّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ کے ہاتھ پر بیعت ہونے کی ترغیب بھی دیا کرتے، ان کی کوششیں رنگ لائیں ایک دن میں نے ان اسلامی بھائی کے سامنے امیرِاہلسنّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ سے بیعت ہونے کی خواہش کا اظہار کیا تو انہوں نے بذریعۂ اِنٹر نیٹ ہاتھوں ہاتھ مجھے