اور نجانے کب میری آنکھوں سے بے ساختہ آنسو رَوَاں ہوگئے مجھے خبر تک نہ ہوئی میری اس کیفیت کودیکھتے ہوئے دکاندار نے کہا کہ رانا صاحب بیٹھ جائیے تو میں بیٹھ گیا اور اب بھرپور توجہ سے بیان سننے میں مشغول ہو گیا اسی دوران میری آنکھوں سے نکلنے والے آنسوؤں کی جھڑیاں لگ گئیں۔ خیر بیان کے اختتام پر میں وہاں سے سیدھا حضرت داتا گنج بخش رحمۃُ اللہِ تعالٰی عَلَیہ کے دربارپر حاضری دینے چلا گیا مگر ابھی تک مجھ پروہ کیفیت طاری تھی اور ان کے پرسوز الفاظ میرے کانوں میں گونج رہے تھے مجھے ایسا محسوس ہورہا تھا کہ جیسے یہاں بھی وہی بیان چل رہا ہے دربار پر بیٹھ کے کافی دیر روتا رہا پھر وہاں سے باہر آیا اور میری حالت ایسی تھی کہ مجھے اپنی کچھ خبر نہ تھی کہ میں نے کہاں جانا ہے ایک گاڑی میں سوار ہوگیا انہوں نے پوچھا کہ کہاں جانا ہے میں نے کہا اپنے گھر، پھر اس نے پوچھا تمہارا گھر کہاں ہے میں کافی دیر سوچتا رہاا ور اسے بتایا کہ میرا گھر میلسی میں ہے وہ بولے بھائی گاڑی ملتان پہنچنے والی ہے میں نے کہا میں تو میلسی جاؤں گا وہ بولے ملتان کا کرایہ نکالو ورنہ ابھی دیوانگی دور کرتے ہیں میں نے رقم پیش کی تو انہوں نے مجھے راستے میں اُتار دیا ، اب میرے پاس سوائے تن کے کپڑوں کے کچھ بھی نہ تھا۔ میں پریشان کھڑا تھا کہ اچانک ایک سبز سبز عمامے والے اسلامی بھائی نظر آئے جو سائیکل پر سوار تھے انہوں نے مجھے اپنی سائیکل پر بٹھا کرشہر پہنچا دیا اسی