بیان کا خلاصہ ہے کہ یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں مرکز الاولیاء لاہور میں ایک ٹی وی چینل پر بطورِ ہدایت کار کام کیا کرتا تھا ایامِ زندگی یادِ الہٰی سے غفلت میں گزر رہے تھے مگر اس وقت مجھے اس بات کا بالکل بھی احساس نہ تھاکیونکہ میں اپنے گمانِ فاسد میں تو انتہائی حسین و رنگین زندگی گزار رہا تھا مجھے کیا معلوم تھا کہ اس طرز پر زندگی گزانے سے آخرت میں رب عَزَّوَجَلَّ کے روبرو شرمندگی اور رسوائی وابستہ ہے ،مجھے فنکاراؤں اور اداکاراؤں سے میل جول کا بہت شوق تھا اور آئے دن ان کی پرتکلف دعوتیں کرکے ان پر بیش بہا روپیا خرچ کردیا کرتا اور یوں اس کے صلے میں ان کی طرف سے کی جانے والی نوازشات سے لطف اندوز ہوا کرتا۔ یوں تو میری آمدنی بھی کوئی کم نہ تھی مگر اس کے باوجود ان تمام فضولیات کے لئے گھر والوں سے بھی روپے منگوا لیا کرتا الغرض بے حیائی کا یہ سلسلہ کئی سالوں تک جاری رہا۔ میری عصیاں بھری زِندگی کی شام ہوئی اور آفتابِ ہدایت کچھ یوں طلوع ہوا کہ ایک روز میں کریانہ اسٹور پر گیا تو وہاں ایک پر سوز آواز میرے کانوں سے ٹکرائی آواز اس قدر درد بھری تھی کہ میں اس کی طرف متوجہ ہوئے بغیر نہ رہ سکا بیان کرنے والی ہستی امیرِاہلسنّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ تھے جو گانے باجوں کی ہولناکیوں کے متعلق بیان کررہے تھے ان کی پر اثر کلمات جیسے جیسے میری سماعتوں سے ٹکرا رہے تھے مجھ پر سوز کی کیفت طاری ہوتی جا رہی تھی