خیر مقدم کیا اور یوں اجتماع کی شرکت کو اپنا معمول بنا لیا۔
دعوتِ اسلامی کے مشکبار مدنی ماحول میں گزارے ہوئے چندلمحات میری زندگی کا حاصل ثابت ہوئے۔ جس وقت اجتماع میں گئی تھی کسی قسم کے پردے کا اہتمام نہ تھا، آدھے بازو والی قمیص پہنے ہوئی تھی مگر جب واپس آئی تو میں نے اپنے بازووں کو اپنے دوپٹے میں چھپالیا تاکہ کسی نامحرم کی ان پر نظر نہ پڑے، نظریں جھکائے گھرپہنچی اور پھر نمازوں کی پابندی شروع کردی، رات کی خاموشی میں اُٹھ کر میں نے روروکر اپنے رب عَزَّوَجَلَّ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگی اور یہ پختہ ارادہ کرلیا کہ اب گانے باجے نہیں سنوں گی، فلمیں ڈرامیں نہیں دیکھوں گی اور کوئی ایسا کام نہیں کرونگی جو اللہ عَزَّوَجَلَّ کی نافرمانی کا سبب بنے چنانچہ اپنے عزم پر استقامت پانے کے لیے میں مدَنی ماحول سے وابستہ ہوگئی ، اسلامی بہنوں کے سنّتوں بھرے اجتماعات میں پابندی سے جانے لگی، مدنی برقعہ پہننے لگی اور باپردہ رہنے لگی۔ میری زندگی میں آنے والی یہ مدَنی بہار سب ہی کے لیے حیرانگی کا باعث بن گئی، جن کا خیال تھا کہ یہ مدنی برقع نہیں پہن سکتی جب انہوں نے اپنی آنکھوں سے مجھے باپردہ دیکھا تو وہ بھی حیران رہ گئے۔ مدَنی
ماحول نے مجھے یادِ مدینہ میں تڑپنے والا دِل عطا کردیا، پہلے ہر وقت گانے سننے اور گنگنانے کی دھن سوار رہتی تھی مگر اب گانوں باجوں سے ایسی نفرت ہوگئی ہے کہ راہ چلتے ہوئے کسی سمت سے گانوں کی آواز آتی ہے تومیں کانوں میں انگلیاں ڈال لیتی ہوں تاکہ یہ منحوس آواز مجھے