وقفِ مدینہ |
یقینا یہ نہیں ہو سکتا کہ ملّتِ اسلامیہ کا ہر فرد اپنا گھر بار چھوڑ کر دینِ اسلام کی تعلیمات و احکامات سیکھے اور اس کی نشرو اِشاعت کے لئے سفر کرے،کیونکہ اِس طرح توتِجارت،زراعت اور صَنعت وغیرہ میں خلل واقِع ہو جائے گا،لیکن لا ریب (بِلاشُبہ)یہ تو ممکن ہے کہ ہر عَلاقہ و شہر سے کچھ نہ کچھ افراد حُصُولِ عِلمِ دین اوراِس کی ترویج کے لئے اپنے آپ کو وقف کر دیں چنانچہ پ ۱۱سُوْرَۃُ التَّوْبَۃ آیت۱۲۲ میں ارشاد ہوتا ہے:
وَمَا کَانَ الْمُؤْمِنُوۡنَ لِیَنۡفِرُوۡا کَآفَّۃً ؕ فَلَوْلَا نَفَرَ مِنۡ کُلِّ فِرْقَۃٍ مِّنْہُمْ طَآئِفَۃٌ لِّیَتَفَقَّہُوۡا فِی الدِّیۡنِ وَلِیُنۡذِرُوۡا قَوْمَہُمْ اِذَا رَجَعُوۡۤا اِلَیۡہِمْ لَعَلَّہُمْ یَحْذَرُوۡنَ ﴿۱۲۲﴾٪
ترجمہ کنزُالایمان:اور مسلمانوں سے یہ تو ہو نہیں سکتا کہ سب کے سب نکلیں تو کیوں نہ ہو کہ اِن کے ہر گروہ میں سے ایک جماعت نکلے کہ دین کی سمجھ حاصل کریں اور واپس آکر اپنی قوم کو ڈر سُنائیں اِس اُمید پر کہ وہ بچیں۔ حضرتِ صدر الافاضل مولانا مُفتی سید حافظ محمد نعیم الدین مُراد آبادی علیہ رحمۃ اللہ الھادی اس آیت کے تحت'' تفسیرِخزائنُ العرفان''میں لکھتے ہیں، حضرت سَیِّدُنا ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے کہ قبائلِ عرب میں سے ہر ہر قبیلے سے